Wednesday, January 20, 2016

طالبان اور آئی ایس آئی 2


طالبان اور آئی ایس
(ہماری پچھلی تحاریر پر جہاں کچھ بھائیوں نے اعتراض کیا کہ یہ سب حقیقت کے منافی اور پراپیگنڈا پر مبنی تحاریر ہیں تو بعض احباب مزید تفصیلات جاننے کے خواہش مند تھے اس لیے اس سلسلے میں مزید چند حصوں کا اضافہ کیا جار ہا ہے ساتھ ساتھ حوالہ جات وغیرہ بھی پیش کیے گئے ہیں)
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی کیاحقیقت ہے؟
طابان کے نئے امیر ملا منصور بھی پچھلے امیر ملا عمر کی طرح زیرک ہیں جو کسی بھی بیرونی طاقت(بشمول پاکستانی اسٹیبلشمنٹ) کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں،اور جنہوں نے ملا عمر کی وفات کے بعد تعزیت و بیعت کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے جنگ کو امریکی انخلا اور طالبان حکومت کے قیام تک جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا،اور تب تک کسی قسم کے مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا۔یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ طالبان افغان حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے شروع سے ہی انکاری ہیں کیونکہ وہ افغان حکومت کو امریکہ کا مکمل آلہ کار سمجھتے ہیں اور انہیں ان امور میں مکمل بااختیار نہیں سمجھتے اور ملک میں جاری خانہ جنگی کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھتے ہیں اس لیے امریکی انخلا کے بعد ہی صرف امریکہ سے امن مذاکرات کے خواہاں ہیں۔اس لیے ان مذاکرات کی حقیقت یہیں واضح ہو جاتی ہے مگر طالبان نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران عالمی میڈیا کی مذاکرات سے متعلق پھیلائی گئی خبروں اور مختلف ممالک کے سرکاری عہدیداروں کے بیانات کو مسترد کر دیا ۔
افغان طالبان کا اعلامیہ جس میں مذاکرات سے لاتعلقی کا اظار کیا گیا
امن مذاکرات کےآغاز سے متعلقہ افواہات کے بابت امارت اسلامیہ کا اعلامیہ
ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ جلد ہی چین یا پاکستان میں امارت اسلامیہ اور کابل انتطامیہ کے درمیان امن مذاکرات شروع ہونگے۔اس بارے میں امارت اسلامیہ نے تمام صلاحیت سیاسی دفتر کو دی ہے، جبکہ دفتر اس سے عمل سے آگاہ نہیں ہے۔امارت اسلامیہ کی اپنے مؤقف اور پالیسی کی رو سے سیاسی امور کے لیے خصوصی اعضاء ہیں۔ ماضی میں بھی اس سے متعلق کئی بار وضاحتیں نشر ہوکر امارت اسلامیہ کی پالیسی واضح ہوئی ہے
امارت اسلامیہ افغانستان
14/شوال المکرم 1436ھ
30 / جولائی 2015 ء
http://www.shahamat-urdu.com/?p=3140
چین میں کابل انتظامیہ سے ملاقات کی تردید کا ایک اور بیان
http://www.shahamat-urdu.com/?p=61

دوسری بات یہ ہے کہ ملا عمر کی وفات کے اعلانا ت کے بعد چند ایک مخصوص کمانڈر اور گروہ طالبان کے نئے امیر کی سربراہی قبول کرنے سے انکاری ہیں۔اور ان میں سے اکثریت افغان حکومت سے مذاکرات کی حامی ہے۔اس میں سے ایک فدائی محاز ہے جسے2006 میں ہی طالبان کی صفوں سے نکال دیاگیا تھا(اس گروپ کے رہنماؤں میں سے ایک کی پشاور میں رہائش ہے اور آئی ایس آئی سے قریبی تعلقات کے الزامات ہیں)،اسی طرح سابقہ طالبان کمانڈر منصور داداللہ ہیں(جنہیں حال ہی میں پاکستانی ایجنسیوں کی قید سے رہائی ملی ہے،اور کچھ ذرائع کے مطابق یہ رہائی مخصوص مقاصد کے تحت عمل میں آئی)۔ان کے علاوہ چند مخصوص کمانڈر جنہیں مری مذاکرات میں طالبان کا نمائندہ سمجھا جا رہاہے وہ بھی نئے امیرکی سربراہی اور شوریٰ کا فیصلہ قبول کرنے سے انکاری ہیں (گویا یہ لوگ فی الحال طالبان کے نظم سے نکل چکے ہیں) ،جبکہ طالبان کی شوریٰ اور نئے امیر ملا منصور مذاکرات سے متعلق وہی موقف رکھتے ہیں جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ایسی ہی چند لوگوں نے ملا عمر کے بیٹے اور بھائی کو ملا منصور اور شوریٰ کے خلاف کرنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش ناکام گئی اور ملاعمر کے بیٹے اور ان کے بھائی نےملا منصور کی اطاعت کا اعلان کر دیا۔اس لیے اگر کچھ لوگ مذاکرات کے حامی ہیں یا جنہیں طالبان کا نمائندہ سمجھا جا رہاہےوہ طالبان نہیں ہیں بلکہ انہیں افغانستان میں آئی ایس آئی کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔یہ ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کیے جانے والے مذاکرات کے دعووں کی حقیقت۔۔۔۔۔

طالبان کو اسلحہ اور پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟
جیسا کہ پچھلی تحاریر میں قارئین کو بتایا تھا کہ طالبان کو اسلحہ زیادہ تر فتو حات میں ملا ہے اور پیسہ افغان اور پوری دنیا کی اسلام پسند عوام کی جانب سے ،تو آئیے طالبان خود اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
افغان طالبان کے اقتصادی کمیشن کے سربراہ ابو احمد سے انٹرویو سے ایک اقتباس
سوال : محترم مولوی صاحب! اقتصادی حوالے سے امارت اسلامیہ کا دار ومدر اور تکیہ کن ذرائع پر ہے ؟
جواب : اس سوال کا جواب انتہائی اہم ہے ۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ امارت اسلامیہ اس قدر مصارف کس طرح پوری کرتی ہے ۔ میں کہنا چاہوں گا کہ اگرچہ ہمارے کوئی واضح مالی منابع نہیں ہیں مگر پوری امت مسلمہ کا تعاون امارت اسلامیہ کو حاصل ہے ۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمان جو کئی نسلوں سے ایک واقعی اسلامی امارت کے خواہشمند ہیں امارت اسلامیہ سے تعاون کو اپنا ایمانی فرض سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں کے تعاون کی ہمارے پاس بہت واضح مثالیں ہیں ۔ سیکیورٹی خدشات اور یہاں بات لمبی ہوجانے کے خوف سے میں اس کا ذکر مناسب نہیں سمجھتا ۔ مختصرا اتنا بتادوں کہ امارت اسلامیہ کو مالی تعاون عام اہل خیر حضرات سے ملتا ہے ۔چوں کہ امارت اسلامیہ کے اندرونی نظام میں مکمل طور پر اخلاص ، قربانی اور تقوی کا نظا م قائم ہے ، مکمل شفافیت ہے اس لیے یہ تعاون بہت شفاف طریقے سے خرچ کیا جاتا ہے اور بے جا طور پر ضائع نہیں کیا جاتا اس لیے کم پیسوں میں بہت زیادہ کام ہوجاتا ہے ۔
http://www.shahamat-urdu.com/?p=1026
طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے عربی مجلے الشرق الاوسط سے انٹرویو سے ایک اقتباس
سوال:اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ طالبان فی الحال اقتصادی طورپرمالی مشکلات سے دوچارہیں۔
جواب:ہمیں امید ہے کہ ہمارے کمزوری کازمانہ گزرگیاہے۔فی الحال انشاءاللہ امارت اورہمارے مجاھدین اوربھی مضبوطی کے حالت میں ہے۔ ہمیں اپنے عوام کاوسیع حمایت حاصل ہے۔ ہردن کے ساتھ پیش قدمی کررہےہیں۔ فوجی لحاظ سے ہردن کئی چھوٹابڑااسلحہ اوردوسری جنگي سازوسامان دشمن سے غنیمت کے طورپرحاصل ہوتاہے۔لہذامیں ایس بات کی تردیدکرتاہوں کہ خدانخواستہ امارت اقتصادی طورپرمالی مشکلات سے دوچارہے۔
http://www.shahamat-urdu.com/?p=4384
اس اقتباس میں سے عوام کی وسیع حمایتت اور جنگی سازوسامان کی غنیمت والے الفاظ سے واضح ہوجاتا ہے کہ طالبان کو مالی وسائل کہاں سے ملتے ہیں۔صرف قندوز کی فتح کے بعد اب تک کی فتوحات میں 600 سے زائڈ بکتر بند،ٹینک اور فوجی گاڑیاں طالبان کو ملی ہیں جنہیں محفوظ مقامات کی طرف منتقل کی اگیا ہے تو ایسی تنظیموں کا کسی ملک کے پیسے کی کیا ضرورت ہے۔
افغان طالبان کا پاکستانی جہادی تنظیموں سے تعلق کس نوعیت کا ہے؟
جیسا کہ اس سلسلے کی پچھلی تحاریر میں اپنے قارئین کو بتایا تھا کہ افغان طالبان اور پاکستانی جہادی تنظیموں خاص طور پر القاعدہ بر صغیر،تھریک طالبان حلقہ محسود اور مرکزی تھریک طالبان پاکستان وغیرہ(کچھ عرصہ پہلے حلقہ محسود بھی واپس تحریک طالبان پاکستان میں دوبارہ شامل ہو گیا تھا) کے درمیان تعلقات نہایت گہرے ہیں تو آئیے اس کو ایک تازہ مثال سے سمجھتے چلیں۔
شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد پاکستانی عسکری تنظیموں کے جنگجوؤں اور رہنماؤں کی بڑی تعداد افغاستان میں چلی گئی ہے ،اور ان تنظیموں میں خاص طور پر القاعدہ برصغیر(القاعدہ کی پاکستان، ہندوستان،برما اور بنگلہ دیش وغیرہ میں سرگرم شاخ) کو طالبان کی سرپرستی اور مکمل حمایت کے ساتھ سرحدی پٹی پر بڑی تعداد میں ٹریننگ کیمپ میسر آگئے ہیں۔اور ساری جہادی تنظیمیں فی الحال افغان طالبان کی میزبانی میں اپنی عسکری ترتیبات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں 11اکتوبر2015 کو امریکی و افغان سپیشل فورسز نے قندھار ،شوراوک میں دو علاقوں میں موجود القاعدہ برصغیراور دوسری پاکستانی جہادی تنظیموں(بالخصوص تحریک طالبان پاکستان) کے عسکری تربیتی مراکز پر چھاپے مارے،اس دوران امریکی فضائیہ نے صرف پہلی رات 63 فضائی حملے کیے۔جہادی جنگجوؤں نے کئی گنٹے تک کی شدید مزاحمت کی جس کے دوران تمام اہم کمانڈرز محاصرہ توڑ کر نکلنے میں کا میاب ہو گئے۔ افغانستان میں پچھلی 14 سالہ لڑائی کی تاریخ میں اس سے زیادہ شدیدنوعیت کے چھاپے نہیں مارے گئے۔اس میں چھوٹے درجے کے جنگجوؤں سمیت عوام کی بڑی تعداد جاں بحق ہوئی ،دوسری طرف افغان اور امریکی سپیشل فورسز کی بھی بڑی تعداد ماری گئی۔ان حملوں کا فوری بدلہ لیتے ہوئے افغان طالبان نے کوئیک ریسپانس فورس کے مرکز پر 4 خودکش حملہ آوروں کی مدد سے حملہ کرادیا جس میں درجنوں سیکیورٹی اہلکارمارے گئے۔اور اس کاروائی کی ذمہ داری بھی قبول کر لی گئی ہے۔جسے نیچے دیے گئے لنک سے چیک کریں۔
http://www.shahamat-urdu.com/?p=6700
کیا افغان طالبان کی کامیابیاں پاکستانی انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کی مرہون منت ہیں؟
ملا منصور کے عید الفطر پر پیغام سے اقتباس
"کچھ حلقے مجاہدین پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ پاکستان اور ایران کے لوگ ہیں ۔ ان کے یہ خیالات اور الزامات انتہائی ظالمانہ اور خلاف حقیقت ہیں ۔ کیوں کہ ہماری گذشتہ تاریخ اور رواں صورتحال ان دعووں کی تصدیق نہیں کرتی ، اور آئندہ کی تاریخ بھی اس تہمت کے خلاف گواہی دے گی ، ان شاء اللہ۔ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ہمیشہ پاکستان ، ایران بلکہ تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہے ہیں ، پاکستانی اور ایرانی عوام کی طرح دیگر پڑوسی ممالک ، خطے اور عالمی اقوام کی ہمیشہ سے بھلا چاہی ہے اور اب بھی چاہتے ہیں ۔ یہ ہماری طے شدہ پالیسی ہے جو سب کے مفاد میں ہے ۔اس حوالے سے اصحاب دانش سے میرا مطالبہ ہے کہ دشمن کے انٹیلی جنس اداروں کے اس نامعقول پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں ، اپنے عظیم قابل فخر کارنامے غیروں سے منسوب نہ کریں ۔ اتنی بڑی جنگ جس نے بدخشان سے قندہار، فاریاب سے پکتیا اور ہرات سے ننگرہار تک پورے ملک کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے یہ غیروں کی مدد سے لڑنا ممکن ہوتا یا بیرونی امداد کوئی اثر دکھاتی تو اس سے کابل انتظامیہ کے درد کو کوئی چارہ ضرور ملتا جس کے گرد پچاس ممالک کا حصار قائم ہے ۔ اسلحہ سے لے کر افرادی قوت تک سب کچھ انہیں باہر سے ملتا ہے ، یہاں تک کہ ان کے رہنماوں کی بھی پرورش اور تربیت وہیں ہوئی ہے ۔ مگر یہ سب کچھ ان کے قدم نہ جماسکی ، اور آئے دن علاقے ان کے ہاتھوں سے نکلے جارہے ہیں ۔ ہمارے ساتھ اللہ تعالی کی مدد ، مومن عوام کا تعاون اور جہادی روحانیات اور جذبہ شامل حال نہ ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ یہ غیر متوازن جنگ دنیا کی بڑی عسکری قوتوں کے خلاف ایک یا دو ممالک کی خفیہ اورجزئی تعاون کی زور پر چودہ سال تک لڑی جاتی ؟ یقین کریں عقل سلیم اسے تسلیم نہیں کرتی ۔اس لیے مسلمان بھائی چاہے وہ ہم سے دور ہوں یاقریب ، دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں ، دشمن انتہائی مکار اور چالاک ہےجو مسلمانوں اور اسلامی تحریک کے خلاف اپنا پروپیگنڈہ بہت مہارت سے عام لوگوں تک پہنچاتا ہے ۔ مگر مسلمانوں ہوشیار اور اپنی ایمانی فراست سے لیس رہیں ۔"
http://www.shahamat-urdu.com/?p=2597
طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے عربی مجلے الشرق الاوسط سے انٹرویو سے ایک اقتباس
سوال:مغرب میں ہمیں یہ باتیں سننے کوملتی ہے کہ طالبان کے مبارزے کوپاکستانی اینٹلی جنس کی طرف سے آگے لے جایاجارہاہے۔اوریہ کہ ملامحمدعمرکی حیثیت صرف ایک سمبل کے تھی، میں کتنی حقیقت ہے۔
جواب:جی ہاں، اسطرح کاپروپیگنڈے صرف ہمارے خلاف نہیں بلکہ ہرآرادی کی تحریک خصوصااسلامی تحریکوں کے بارے میں کی جاتی ہے۔ تہمت لگانے والےاللہ تعالی کے نصرت پریقین نہیں رکھتے۔وہ عقیدہ کے بنیاد پراللہ تعالی پراوراسکے راستے میں جہاداورقربانی پریقین نہیں رکھتے۔اسی لیے وہ حیران ہے کہ یہ ضعیف لوگ کسطرح سے ایسے خالی ہاتھ کامیاب ہوئے اورایسے بڑے دشمن کوشکست دی۔ تواپنے عقل کی تسکین کے لیے کھبی ہمیں پاکستان کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔کبھی خودامریکیوں اورانکے اینٹلی جنس کے ساتھ ہماررشتہ جوڑتے ہیں اورکبھی اورخرافات کہتےہیں۔ہم یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہماراجہادکسی کے احسانات کی مرہون منت نہیں۔ اورنہ ہی بیرونی امداداورخفیہ ایجنسی اسطرح کے بڑے مبارزے کوآگے لے جاسکتی ہے۔اگربیرونی امداداورخفیہ ایجنسیاں فائدہ مندہوتے توخودامریکہ اوراسکے کٹھ پتلیوں کوفائدہ پہنچاچکے ہوتے۔ اسلیے کہ امریکہ دنیاکے سطح پربہت قوی استخبارات کاحامل ہے اورخفیہ بھی نہیں بلکہ علی الاعلان 14سالوں سے ہمارے ملک میں کام کرتے رہے لیکن انکانتیجہ کجھ بھی نہیں نکلا۔ اگربیرونی امدادکافائدہ ہوتاتوکابل حکومت آج مشکلات میں گرانہ ہوتا،کیونکہ انکے ساتھ 49 بیرونی ممالک مددکرنے والے ہیں۔اب جب یہ سب ناکام ہوگئے ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی دین کابرکت ہے اورمجاھدین کے مقابلے میں انکے باطل ہونے کی نشانی ہے۔وہ لوگ جنکے عقول اس نقطے کے سمجھنے سے قاصرہے ہمارے پیچھے بری تہمتیں لگاتے ہیں۔ یہی انکی عقلی معیارہے۔
http://www.shahamat-urdu.com/?p=4384
 (نوٹ:شہامت ویب سائٹ کچھ عرصے سے ڈاؤن ہو چکی ہے)

No comments:

Post a Comment