Thursday, December 17, 2015

کیا عراقی القاعدہ پھر سے فعال ہو رہی ہے ؟


یمنی القاعدہ (القاعدہ فی جزیرہ عرب) اور ایران کے درمیان ہونے والے قیدیوں کے تبادلے میں ایرانی سفارتکار کے بدلے میں جن اہم القاعدہ رہنماوں کو چھڑوایا گیا ہے ان میں سے ایک ابو القسام خالد العاروری بھی ہیں۔خالد العاروری عراقی القاعدہ (جماعت التوحید والجہاد یا القاعدہ فی بلاد الرافدین) کے بانی ابو مصعب الزرقاوی کے نائب تھے۔ان کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ یہ اب عراقی القاعدہ کو موصل رمادی اور دوسری علاقوں میں پھر سے منظم کر رہے ہیں۔اور عنقریب عراقی القاعدہ کی جانب سے بڑے آپریشن کی بھی اطلاعات ہیں۔
داعش جو کہ اصل میں عراقی القاعدہ ہی تھی اس کی مرکزی القاعدہ سے بغاوت کے بعد القاعد کی عراق میں باقاعدہ موجودگی ختم ہو گئی تھی۔کچھ عرصہ قبل عراق کی سب سے پرانی تنظیم "انصار الاسلام"(انصار السنہ) کے بارے میں اطلاعات تھیں کہ وہ القاعدہ سے باقاعدہ اپنا تعلق ظاہر کرکے(بیعت کر کے) القاعدہ فی بلاد الرافدین میں تبدیل ہو جائے گی۔اس کے لیے انصار الاسلام کے چند اہم رہنماؤں نے وزیرستان کا چکر لگایا اور القاعدہ کے شوری اراکین اور خاص طور پر کردی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں۔انصار الاسلام نے اس دوران غازی عبدالرشیدکے نام سے منسوب ٹریننگ کیمپ کی ویڈیو بھی جاری کی(انصار الاسلام میں کرد جہادیوں کی اکثریت ہے اور موصل اور اس کے ارد گرد علاقے اس تنظیم کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں،پچھلے سال داعش کی طرف سے خلافت کے اعلان سے پہلے کی فتوحات کے دوران خصوصاً موصل کی فتح میں دوسری جہادی تنظیموں اور خاص طور پر "انصار الاسلام "نے بھی اپنے طور پر حصہ لیا تھا)۔مگر داعش کی سختی کی وجہ سے یہ منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے۔داعش کے دباؤ کی وجہ سے انصار الاسلام کے کئی کمانڈر اور جنگجو بھاگ کر شام چلے گئے تھے اور وہاں جبھۃ النصرہ اور دوسرے جہادی گروہوں کے ساتھ ملکر بشار الاسد کیخلاف لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔کئی ارکان بشمول اہم رہنماوں نے شدید دباؤ کی وجہ سے زبردستی داعش کو بیعت دے دی اور کچھ کو داعش نے قتل کر دیا۔فی الحال عراقی جہادی تنظیمیں اندرگراؤنڈ کام کر رہی ہیں لیکن عراقی القاعدہ کے پھر سے فعال ہونے کے بعد یہ امید ہے کہ بڑی تعداد میں کمانڈر اور جنگجو جنہوں نے داعش کے دباؤ کی وجہ سے زبردستی داعش کو بیعت دی ہے وہ موقع ملنے پر القاعدہ میں شامل ہو جائیں گے۔
اس کے علاوہ دولت اسلامیہ کے وہ پرانے کمانڈر یا جنگجو جو شروع سے دولت اسلامیہ میں شامل ہیں مگر حالیہ تبدیلیوں کے بعدان سے نظریاتی ہم آہنگ نہیں رکھتے وہ بھی القاعدہ کی عراقی شاخ میں شامل ہو سکتے ہیں(یاد رہے الجولانی نے ایک انٹرویو میں داعش کے پرانے تجربہ کار کمانڈروں کی تعریف کی ہے جو عراق میں لڑ رہے ہیں)۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی قوی امکان ہے کہ عراقی القاعدہ فی الحال باقاعدہ منظر عام پر نہ آئے اور انڈرگرانڈ کام کرےیا شام کے محاذ کےلیے افرادی و مالی قوت کی سپلائی کاکام لیا جائے کیونکہ دوسری صورت میں داعش انہیں مرتد اور باغی قرار دے کر لڑائی شروع کر دے گی جبکہ القاعدہ اپنی ساری قوت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیخلاف لگانا چاہتی ہےاور القاعدہ قیادت کی یہی خواہش داعش کے بارے میں بھی ہے(یعنی داعش بھی اپنی کاروائیوں کا رخ مکمل طور پر امریکہ اور اس کے مقامی اتحادیوں بشار الاسد اور عراقی حکومت کی جانب موڑ لے)۔بہر حال القاعدہ جو فیصلہ بھی کرے مگر یہ واضح ہے کہ داعش کی القاعدہ سے بغاوت کے باوجود القاعدہ اب بھی عراق میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہ

No comments:

Post a Comment