Friday, December 18, 2015

طالبان اور آئی ایس آئی (1)

جس دن طالبان کی تحریک شروع ہوئی اسی دن سے اس کے متعلق مختلف قسم کے پراپیگنڈے کی بھی ابتداء ہوئی ۔یہ سب مختلف گروہوں نے مختلف مقاصد کے لیے کیا۔ان میں سے ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ طالبان کی تحریک پاکستانی ایجنسی(آئی ایس آئی) کی طرف سے شروع کرائی گئی اور آج تک طالبان آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔اور کثریت اس دعوے کو سچ سمجھتی ہے۔آج ہم غیرجانبدارانہ طریقےسےسچ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اس کےلیے ضروری ہے کہ ہمارے قارئین بھی حقائق کو تسلیم کرنے کی ہمت رکھیں۔
طالبان تحریک کی ابتداء:افغانستان سے روس کے انخلا کے بعدافغانستان میں مختلف جہادی تنظیموں اورجنگجو گروہوں نے اقتدار و قبضے کے لیے آپسی لڑائی شروع کر دی۔ان میں سے اکثر وہی جہادی تنظیمیں تھیں جو روس کے خلاف لڑائی کے دوران مختلف ایجنسیوں سے مکمل رابطے میں رہیں۔ایجنسیوں نے اپنے مفادات کی خاطر ان تنظیموں کو آپس میں لڑوا دیا۔اس خانہ جنگی کے ماحول میں جہادیوں کے بڑی تعداد ان سب سے بے زار ہو کر واپس اپنے گھروں میں لوٹ گئی۔حالات دن بدن خراب ہوتے گئے۔ملا عمر بھی انہی جنگجوؤں میں سے تھے جنہوں نے آپسی خانہ جنگی کے باعث میدان جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور ایک مدرسہ کھول لیا جہاں درس و تدریس شروع کر دی۔مقامی جنگجو کمانڈروں نے آپس میں علاقے بانٹے ہوئے تھے۔اور ان علاقوں میں عوام پر ہر قسم کا ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے تھے۔جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو ملا عمر نے اپنے مدرسے کو بند کر دیا اور اپنے ساتھی کو لے کر مختلف مدارس میں دورے شروع کر دیے تاکہ طلبا کو ان جنگجو کمانڈرز کے خلا ف لڑنے کےلیے تیار کیا جا سکے۔کئی طلبا تیار ہو گئے مشاورت کے بعد گاڑیاں اور اسلحہ اکٹھا کیا گیا اور 24 جون 1994 بروز جمعۃ المبارک صوبہ قندھار میں ضلع ڈنڈ اور پنجوائی کے درمیان سڑک پر موجود ایک چیک پوسٹ پر 12 مسلح طالبان نے حملہ کر دیا۔مقامی کمانڈر پکڑا گیا اور اسکے 20 جنگجو مارے گئے۔ ایسی چیک پوسٹس پورے افغانستان میں تھیں ان جیسے مختلف عسکری مواقع یعنی چیک پوائنٹس،تھانوں اور چھاؤنیوں کی فتح سے ہی طالبان کو مختلف قسم کا اسلحہ و سازوسامان ملا(طالبان کو ملنے والا اکثر اسلحہ ان عسکری فتوحات سے ہی ملتا ہے اور آج تک یہی صورتحال ہے باقی کا اسلحہ یا تو خود بنایا جاتا ہے یا پھر مختلف ذرائع یا سمگلرز سے خریدا جاتا ہے لیکن بہر حال ان سب معاملات میں کوئی ملک یا ایجنسی براہ راست مدد گار نہیں ہے)جن سے آگے کی کاروائیاں آسان ہوتی رہیں۔11 نومبر کو پہلا شہر سپن بولدک فتح ہوا(13 نومبر 1994 کو قندھار فتح ہوا اور تحریک کامیابی سے جاری رہی روس دور کے پرانے جہادی جنگجو اور طلباء ساتھ شامل ہوتے رہے مسلسل مختلف صوبے فتح ہوتے گئے27 ستمبر 1996 کو کابل بھی فتح ہو گیا اور سابق صدر نجیب اللہ کو بھی قتل کر دیا گیا)۔ یعنی طالبان تحریک کسی ایجنسی کی سرپرستی سے نہیں شروع ہوئی بلکہ یہ افغانستان کے داخلی مسائل کا رد عمل تھی جو کہ اسلامی نطام کے بزور قوت نفاذ کا نعرہ لگا کر کھڑی ہوئی اور پورے افغانستان میں پھیل گئی۔ طالبان تحریک کے تمام سربراہ روس کے خلاف جہاد میں بھی بڑے عہدے پر فائز نہیں رہا بلکہ تمام لوگ ان آپسی لڑئیوں ،دولت اور شہرت سے بے نیاز رہنے والے سادہ و درویش صفت جنگجو یا درمیانے درجے کے کمانڈر تھے سوائے جلال الدین حقانی کے جو کہ خود بہت بڑے کمانڈر تھے اور روس کے خلا ف لڑائی کے ابتدائی دور سے ہی لڑ رہے تھے جب انٹیلیجنس ایجنسیوں نے افغانستان کا رخ ہی نہیں کیا تھا( بعد میں سنہ 85 کے قریب جب افغانستان میں روس کی شکست کے آثار نظر آنے لگے تو عالمی انٹیلیجینس اداروں نے اپنے مفادات کی خاطر افغانستان کا رخ کر لیا جو افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جہادی تنظیموں اور گروہوں کی آپسی لڑائی پر منتج ہوا)۔طالبان تحریک جب شروع ہوئی تو پاکستانی انتیلیجینس اداروں کو (پہلے چند ماہ تک)علم ہی نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کے مطابق اس وقت تک آئی ایس آئی طالب لفظ کا معنی بھی نہیں جانتی تھی اور پاکستانی ایجنسیاں انہیں امریکہ کا ایجنٹ سمجھ رہی تھیں پھر چند ماہ بعد معلومات حاصل کرنے کے لیے کرنل ریٹائرد امام کو افغانستان میں بھیجا گیا۔اس وقت تک پاکستانی ایجنسیاں اور حکومت، افغانستان کے سابقہ کمانڈروں کے درمیان جوڑ توڑ میں مصروف تھیں جب طالبان نے افغانستان کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو پاکستان نے ان سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تاکہ افغانستان کے عسکری و سیاسی منظر نامے میں طالبان کو اپنا مہرہ بنایا جا سکے۔طالبان اگرچہ سادہ لوگ سمجھے جاتے تھے اور پاکستان کے حوالے سے (خاص طور پر پاکستانی عوام کے حوالے سے ) برادرانہ جذبات رکھتے تھے مگر کسی کا کارندہ اور آلہ کار بننا بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور یہ سب اس لیے تھا کہ طالبان پیسہ،شہرت اور اقتدار کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ مخصوص اسلامی نطریات ہی ان کے لیے اپنی جان سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔
طالبان تحریک کے آغاز اور نائن الیون سے پہلے تک کے حالات:طالبان تحریک کی کامیابی سے پہلے پاکستان(پاکستان سے مراد یہاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ہے)گلبدین حکمت یار کو افغانستان کا حاکم بنانا چاہتے تھے ، مگر بھارت نواز شمالی اتحاد اور گلبدین حکمت یار کی آپسی لڑائی اور دونوں طرف سے عوام پر کیا جانے والا ظلم (رپورٹس کے مطابق 1994 میں کابل میں ہونے والی آپسی لڑائی اور بمباری کی وجہ سے پچیس ہزار سے زائد افراد مارے گئے) کی وجہ سےے گلبدین حکمت یار مطلوبہ عوامی حمایت کھو چکا تھا۔اس خانہ جنگی کے ماحول میں جب طالبان حکومت کامیاب ہوئی تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو طالبان افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب نظر آئے اس لیے مختلف طریقوں سے تعلقات بڑھائے گئے۔طالبان خود بھی پاکستان کے ساتھ اچھے اور برادرانہ تعلقات چاہتے تھے۔طالبان میں جنگجوؤں کی تعداد کے لحاظ سے افغانیوں کے بعد سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں (قبائلی اور پنجابی)کی ہی رہی۔پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا یہ دورانیہ نائن الیون تک رہا ۔ واضح رہے کہ پاکستان میں طالبان کو سب سے زیادہ مالی یا جانی سپورٹ اسلامی مدارس، پاکستانی علماء مختلف جہادی تنظیموں اور قبائلیوں وغیرہ سے ملی نا کہ پاکستانی حکومت سے اور جہاں تک پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کا سوال ہے تو اسے طالبان سے زیادہ پاکستانی عوام( یعنی پاکستانی جہادی تنظیموں وغیرہ) نے ہی طالبان کی مدد کےلیے استعمال کیا اور اس کے بدلے میں یقیناً طالبان نے افغانستان میں پاکستان دشمن اور بھارت نواز عسکری اتحاد کو شکست دے کر پاکستانی مفادات کا تحفظ کر کے معاملات کو برابر کر دیا۔ایسے میں چند واقعات ہوئے جس سے طالبان اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔القاعدہ کے امیر اسامہ بن لادن اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان آچکے تھے۔امریکہ کے خلاف جہاد کے اعلان کی وجہ سے امریکہ نے اسامہ بن لادن پر کئی حملے کرائے۔20 اگست 1998 کو رات کے وقت امریکی بحری بیڑے نے بحیرہ عرب میں پاکستانی سمندری حدود سے افغانستان میں عرب،افغان اور پاکستانی جہادیوں کے تربیتی مراکز پر کروز میزائیل حملے کیے(خوست میں 90 میزائیل اور جلال آباد میں 60 میزائیل داغے گئے)۔یہ حملے پاکستانی حکام کی رضامندی سے ہوئے حملوں سے چند گھنٹے قبل ہی میران شاہ بارڈر بند کر دیا تھا۔زخمی جنگجوؤں کو میران شاہ کے راستے پاکستان بھجوانے کی کوشش کی گئی مگر بارڈر صبح نو بجے کے بعد کھولا گیا اور یہ سب امریکی ہدایات کے عین مطابق تھا۔اس کے با وجود جب پاکستانی اور چینی حکام نے نہ پھٹ سکنے والے کروز میزئیلوں کو منہ مانگی قیمت کے تحت طالبان سے خریدنا چاہا تو طالبان نے وہ میزائیل مفت ہی دے دیے اس سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان اپنے ہمسایہ ممالک سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے تھے لیکن امریکہ کی خطے میں بڑھتی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ تعلقات جو پوری طرح قائم بھی نہیں ہوئے تھےآہستہ آہستہ اپنے اختتام کو پہنچنے لگے۔بامیان میں بدھا کے مجسمے کی تباہی ہو یا یونوکال گیس پائپ لائن کا معاملہ،اسامہ بن لادن کی حوالگی کا معاملہ ہو یا امریکی جارحیت ان سب معاملات میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا نا کہ طالبان کا۔کہیں لالچ سے(سابق صدر پرویز مشرف نے ملا عمر کو مرسیڈیز گاڑی بھی تحفے میں دی تھی جسے ملاعمر نے واپس بھجوا دیا تھا) اور کہیں امریکہ کا خوف دلاکر امریکہ اور عالمی قوتوں کے مفادات کے مطابق کام کرنے کی تحریص دلائی گئی جو یقیناً طالبان جیسے غیرت مند وں کےلیے قابل قبول نہیں تھی۔اسی طرح جہاں طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کیے گئے وہیں بیک وقت شمالی اتحاد کے بعض کمانڈروں سے بھی درپردہ تعلقات رکھے گئے۔جہاں طالبان اور انکی حامی جہادی تنظیموں کی پاکستان میں رسائی تھی وہیں طالبان مخالف ،امریکہ نواز کمانڈر وں اور رہنما ؤں حامد کرزئی،گل آغا شیرزئی،ملا ملنگ ،کمانڈر عبدالحق وغیرہ بھی اپنی سرگرمیاں پاکستان سے جاری رکھے ہوئے تھے بلکہ نائن الیون کے فوراً بعد ان کمانڈروں کو امریکہ کی ایماء پر طالبان کے خلاف حملوں کےلیے مدد بھی فراہم کی گئی۔پاکستان نے طالبان سے تعلقات کے دوران سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ جب طالبان پاکستان کو برادر اسلامی ملک سمجھ رہے تھے تو بیک وقت پاکستانی حکام طالبان کو ایک عام جنگجو ملیشیا کے طور پر ڈیل کر رہے تھے اور اس پر مزید معاملہ تب خراب ہوا جب امریکہ اور طالبان کی براہ راست مخاصمت شروع ہوئی تو پاکستانی حکام نے اپنے پرانے اتحادی امریکہ کا ساتھ دیا۔
نائن الیون سے اب تک کے حالات:
نائن الیون کے بعد امریکہ و نیٹو اتحاد نے افغانستان پر بھرپور حملہ کر دیا۔پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا۔امریکہ کو انٹیلی جینس اور لاجسٹک سپورٹ مہیا کی گئی۔پاکستان نے اپنی زمین اور فضا امریکہ کے حوالے کر دی۔پاکستانی ائیربیسز سے اڑے والے امریکی طیاروں کی بمباری کے ذریعے ہزاروں عام افغان شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔عوام کو بھاری جانی نقصان سے بچانے اور لمبی گوریلا لڑائی کی حکمت عملی کے تحت طالبان نے شہروں سے سقوط کر لیا۔افغان،ازبک،عرب اور پاکستانی جنگجوؤں کی اکثریت نے پاکستانی قبائلی علاقوں کا رخ کیا۔کئی اندرون پاکستان مختلف شہروں میں منتقل ہو گئے۔طالبان حکومت کے پاکستان میں سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو پاکستان نے امریکیوں کے حوالے کر دیا پھر القاعدہ،طالبان رہنماؤں و جنگجوؤں اور ان سے منسلک لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔ملا عمر کے نائب ملا برادر،ملا برادر کے نائب ملا عبید ،شعبہ تعلیم و تربیت اور شعبہ ثقافت کے وزیر استاد یاسر، ملا عمر کے مشیر و معاون ملا جہانگیر وال زابلی،روس دور کے مشہور جہادی رہنما یونس خالص کے بیٹے اور طالبان رہنما ملا انور الحق مجاہد،قندوز کے گورنر ملا عبدالسلام،بغلان کے گورنر ملا محمد،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر ملا ترابی، طالبان کے سابق ملٹری چیف ملا داداللہ کے بھائی ملا منصور داد اللہ کو پاکستان نے گرفتار کرکے جیلوں میں قید کر دیا۔طالبان کے سابق وزیر دفاع ملا عبید اللہ اخوند پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی قید کے دوران کراچی جیل میں وفات پاگئے،جس پر طالبان کی طرف سے مذمتی بیان جاری کیا گیا۔اسی طرح پاکستان میں دو دفعہ گرفتار کیے جانے والے مشہور طالبان رہنما(سابق وزیر طالبان حکومت)استاد یاسر بھی پاکستانی جیل میں وفات پاگئے۔جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیر الدین حقانی کو بارہ کہو اسلام آباد میں ٹارگٹ کلنگ کی کاروائی میں قتل کر دیا گیا(بعض طالبان ذرائع نے اسے افغانی و پاکستانی انٹیلی جینس کی مشترکہ کاروائی قرار دیا)۔پچھلے کچھ عرصے میں تواتر سے مختلف طالبان رہنماؤں کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کاروائیوں میں قتل کیا گیا(طالبان اسے بھی پاکستانی انٹیلی جینس ایجنسیوں کی کاروائی سمجھتے ہیں )۔نیٹو سپلائی بھی پاکستان کی سرزمین سے گزر کر جاتی رہی۔پاکستان میں طالبان،القاعدہ،ازبک،اور چینی جہادیوں کی اکثریت وزیرستان اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں منتقل ہو گئی اور وہاں عسکری و تربیتی مراکز قائم کر دیے،گویا وزیرستان و گردونواح پوری دنیا کی جہادی تنظیموں(بشمو ل القاعدہ و طالبان) کا مرکز اور امریکی و نیٹو اتحاد کے خلاف ایک بیس کا کام کر رہا تھا۔انتہائی مختصر سے وقفے کے بعد طالبان ،القاعدہ اور دوسرے معاون گروہوں نے افغانستان میں امریکہ پر حملے شروع کر دیے ۔اور پیچھے سے پاکستان افواج نے امریکہ کے کہنے پرقبائلی علاقوں میں ازبک اور القاعدہ جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کر دیے۔جو درحقیقت امریکہ کو افغانستان میں محفوظ بنانے کی پالیسی تھی۔پاکستانی انٹیلی جینس کی مدد سے طالبان و القاعدہ رہنماؤں کے خلاف ڈرون حملے بھی شروع کیے گئے جو تا حال جاری ہیں۔ وزیرستان و قبائل میں افغان طالبان کے میزبان اور مددگار قبائلی جنگجوؤں نے وزیرستان و قبائل میں امریکی مخالف طالبان و القاعدہ جنگجوؤں کو پشت سے حفاظت فراہم کر نے کےلیے تحریک طالبان پاکستان کے نام سے اتحاد بنا لیا۔ وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے مراکز ایک ساتھ رہے ہیں(افغان طالبان کے سب سے زیادہ قریب پاکستانی طالبان کا حلقہ محسود ہے) کئی طالبان رہنماؤں بشمول استاد یاسر ،حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر ملا سنگین اور طالبان دور کے ملٹری چیف ملا داد اللہ کی پاکستانی طالبان رہنماؤں کے ساتھ کئی تصاویر اور ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں ۔تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی افواج کے مسلسل فوجی آپریشنز کا دفاع شروع کر دیا اور اس دوران القاعدہ و طالبان کامیابی سے افغانستان میں امریکی و نیٹو اتحاد پر تباہ کن عسکری حملے شروع کر دیے۔لال مسجد آپریشن کے بعد القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نے پاکستان سیکیورٹی اداروں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا(یہاں یہ یاد رہنا چاہیے کہ القاعدہ 1996 سے لے کر تاحال افغان طالبان کی زیر سرپرستی کام کر رہی ہےجس کا تازہ ثبوت نئے طالبان رہنما ملا منصور کا ایمن الظواہری کی بیعت قبول کرنا ہے) اور پاکستان میں امریکی اور پاکستانی عسکری اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا لیکن زیادہ توجہ افغانستان میں امریکہ پر مرکوز رکھی گئی۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہےکہ افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف آج تک کوئی کاروائی کیوں نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ اصل اور حقیقی دشمن امریکہ کو سمجھتی ہیں اور باقی تمام نیٹو اور نان نیٹو اتحادی بشمول پاکستان و افغانستان کی حکومتوں اور افواج کو امریکہ کا آلہ کار سمجھتی ہیں۔ان کے خیال کے مطابق جب تک امریکہ کو مکمل طور پر زیر نہیں کر لیا جاتا تب تک دوسری جنگوں میں اپنے آپ کو پھنسانا دانش مندی نہیں اس لیے القاعدہ و طالبان رہنماؤں نے پے درپے آپریشنز سے بچنے کےلیے پاکستانی افواج کے خلاف صرف دفاع کے لیے ہی پاکستانی طالبان کا اتحاد تشکیل دیا تھا(یہاں یہ دھیان میں رہنا ضروری ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے چند گروہوں کی چند مخصوص شدت پسندانہ کاروائیوں بشمول،واہگہ بارڈر،پشاور سکول وغیرہ کو القاعدہ اورافغان طالبان رہنما ؤں اور خود پاکستانی طالبان کے چند رہنماؤں نے بھی سخت نا پسند کیا اور اس کی شدیدمذمت کی گئ)۔ضرب عضب آپریشن میں شمالی وزیرستان میں جہاں دوسری جہادی تنظیموں گروہوں کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا وہیں افغان طالبان کے مراکز کو بھی بالخصوص نشانہ بنایا گیا،بلکہ اس سے کچھ عرصہ قبل شروع ہونے والے ڈرون حملوں کے نئے سلسلے میں افغان طالبان رہنماؤں اور مراکز کو خصوصی طور پر نشانہ بنایاگیا اورشروع سے ہی ڈرون حملوں کی ساری کمپین کا زیادہ تر انحصار پاکستانی انٹیلی جینس پر ہی رہا ہے۔پاکستانی میڈیا اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے ہر کچھ عرصے بعد اٹھایا جانے والا طالبان مذاکرات کا شوشہ بھی صرف یہ ثابت کرنے کےلیے ہوتا ہے کہ گویا افغان طالبان ،پاکستانی حکومت و فوج سے اٹھائے جانے والے اتنے صریح نقصانات کے باوجودپاکستان کے ایجنٹ یا کم ازکم دوست ہی ہیں،حالانکہ افغان طالبان اپنی آفیشل ویب سائٹ پر مذاکرات کے ان دعووں کی پرزور تردید کر چکے ہیں۔آخر پر دو باتیں کہنا چاہوں گا کہ جو تعلق پاکستان کا امریکہ سے ہے وہی القاعدہ یا پاکستانی طالبان کا افغان طالبان سے ہے۔اور چونکہ امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ و حکومت آپس میں دوست و اتحادی ہیں اور امریکہ وطالبان آپس میں دشمن ہیں اور دشمن کا دوست دشمن ہی ہوتا ہے اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
۔

2 comments:

  1. السلام و علیکم
    جناب تازہ ترین صورتحال پر کوئی معلومات دیں تازہ حالات پر کوئی کالم ہو تو شیئر کریّ
    برائے مہربانی

    ReplyDelete
  2. Titanium Earring posts - Tatiana - Titsiana Titsiana
    › posts titanium iv chloride › titanium-earring › posts › titanium-earring Feb 25, 2017 — Feb 25, 2017 titanium eyeglass frames The Titsiana Group is a new mens black titanium wedding bands name to the Titsiana group. Their new slogan is 'We are titanium powder All The Way To titanium money clip The Best'.

    ReplyDelete