Saturday, December 19, 2015

حرکت الجہاد الاسلامی :"آئی ایس آئی" سے "القاعدہ "

معروف صحافی سلیم شہزاد کی کتاب "انسائیڈ القاعدہ اینڈ طالبان" سے منتختب ایک مضمون کا مکمل ترجمہ و تلخیص

حرکت الجہاد الاسلامی :"آئی ایس آئی" سے "القاعدہ "۔

سنہ دو ہزار پانچ میں حرکت الجہاد الاسلامی کے مضبوط آپریشنل کمانڈر محمد الیاس کشمیری کو آئی ایس آئی کی جیل سے دوسری مرتبہ رہائی کے بعد یہ یقین ہو گیا تھا کہ امریکی دباؤ نےپاکستانی فوج کی خطے میں سپریم سٹریٹجک فورس کے طور پر کردار ادا کرنے کی نائن الیون سے پہلے والی صلاحیت کو مستقل طور پرغیر فعال کر دیا ہے۔اس لیے اس نےکشمیر میں اپنی جدوجہد ترک کرکے افغانستان میں منتقل ہوکر لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔الیاس کشمیری افغانستان سے پہلے سے ہی واقف تھا۔جب کشمیر جانے سے پہلے اس نے وہاں روس دور (1980 کی دہائی ) میں اپنی پہلی عسکری تربیت مکمل کی تھی اور روس کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔
اس نے اپنے خاندان کو لیا اور شمالی وزیرستان منتقل ہو گیا۔ان کا ابتدائی مقصد افغان طالبان کے شانہ بشانہ نیٹو فورسز کے خلاف لڑنے کا تھا۔تاہم،بین الاقوامی جہادی نیٹورک کے ساتھ زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آگئی۔اب وہ صرف کشمیر کی آزادی کا خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔اس کی بھارت کے خلاف کشمیر کی آزادی کی جدوجہد ایک متحرک قوت کے طور پر موجود رہی، مگر اب یہ وسیع ہو کر ایک عالمی اسلامی جنگی نقطہ نظر پر محیط ہو گئی تھا۔
شمالی وزیرستان کا چھوٹا سا شہر رزمک اس کا نیا گھر بن گیا تھا،کشمیری اب وہاں پر عسکری تربیتی قائم کر رہا تھا۔کشمیری ایک کرشماتی کمانڈر تھا جس نے پورے بھارت میں اپنی کاروائیوں کے ذریعے بھارتی فوج کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا تھا۔الیاس کشمیری جہادی کیمیونٹی کے ساتھ بہت اچھے روابط رکھتا تھا،اس لیے اس کی وزیرستان مین موجودگی سینکڑوں جہادیوں کی کشمیر سے افغانستان آمد کا سبب بنی۔ان جنگجوؤں نے کشمیر میں اپنی جدوجہد کو ترک کر دیا اور شمالی وزیرستان منتقل ہو گئے تاکہ افغانستان میں نیٹو فورسز کے خلاف عسکری کاروائیاں کر سکیں۔
سنہ 2006 میں کشمیری کے عسکری کیمپ نے سب کو متاثر کیا۔اب اس کے پاس پاک فوج کے کے ریٹائرڈ آرمی افسران،اہم جہادی تنظیموں کے سابق کمانڈرز ،اور اس کی اپنی 313 بریگیڈ کے "آئی ایس آئی "کے کشمیری سیلز سے تربیت پانے والے خونی جنگجو موجود تھے۔القاعدہ رہنما مصطفیٰ ابویزید اور ابو ولید انصاری اور شیخ عیسیٰ الیاس کشمیری کے قریب ہوئے اور اس کی سوچ،نظریات اور فکر کو متاثر کیا۔
ان القاعدہ رہنماؤں کا پہلے دوسرے پاکستانی جہادی کمانڈروں جن میں فضل الرحمٰن خلیل(حرکت المجاہدین)،مسعود اظہر(جیش محمد) اور عبداللہ شاہ مظہر شامل ہیں سے تعلق رہا تھا مگر انہیں یہ احساس تھا کہ یہ جہادی کمانڈرز پاکستانی ایجنسی(آئی ایس آئی) کی طرف سے تعمیر کردہ فولادی پنجرے سے نہیں نکل سکتے۔ان کا خیال تھا کہ پاکستانی جہادی کمانڈرز کبھی بھی ان تزویراتی سرحدوں سے باہر نہیں سوچ سکتے جو انکے ذہنوں میں آئی ایس آئی نے ڈال رکھی تھیں۔وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مقامی قبائلی کمانڈرز بھی قبائلی اور پشتون روایات کا شکار تھے۔اس لیے وہ بھی افغان اور پشتون سرحدوں سے باہر نہیں سوچ سکتے۔
تاہم الیاس کشمیری ان سب سے مختلف تھا۔وہ ایک اختراعی ذہن رکھتا تھا۔اس نے کشمیر میں انڈیا کیخلاف پاکستانی فوج سے ملکر کام کرتے ہوئے ڈسپلن قائم رکھا اور اس تناظر میں پاکستانی فوج کی حکمت عملی پر سختی سے عمل کیا۔تاہم پاکستانی فوج کو قابل قدر امداد دینے کے باوجود اس نے اپنا آپریشنل طریقہ کار وضع کر رکھا تھا تاکہ مستقبل کے سٹریٹجک آپشنز پر عمل درآمد اسان ہو سکے۔کشمیری حقیقی مفکر تھا۔وہ جھکنا نہیں جانتا تھا بلکہ جو کچھ وہ کرتا تھا وہ اس کے غوروفکرکا نتیجہ تھا۔
رزمک میں اس کے القاعدہ سے تعلقات نے اس کےتخیلات کو مزید سلگا دیا۔الیاس کشمیری کو القاعدہ اور القاعدہ کو الیاس کشمیری مل گیا تھااور القاعدہ نے جان لیا کہ کشمیری اور القاعدہ دونوں ایک ہی ویو لینگتھ پر تھے۔القاعدہ کے اتنے قریب آنے والوں غیر عربوں میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔چند مہینوں میں الیاس کشمیری نے القاعدہ کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اسے اپنے اندرونی دائرے میں لانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔سنہ 2007 میں الیاس کشمیری القاعدہ شوریٰ کا باقاعدہ رکن بن چکا تھا۔
سنہ 2007 کے اواخر میں الیاس کشمیری ایک جامع جنگ کے منصوبے کے ساتھ سامنے آیا جس نے خود القاعدہ کو بھی حیران کر دیا۔اس نے قرب قیامت میں مشرق میں برپا ہونے والی جنگوں (غزوہء ہند) سے متعلق اپنا تصور پیش کیا،،جسے القاعدہ کے بہترین عسکری دماغوں نے سوچا تو تھا مگر اس پر عمل درآمد کا کوئی راستہ نطر نہیں آیا تھا۔کشمیری نے اس پر اپنا مقالہ (منصوبہ)پیش کیا۔اس وقت نیٹوفورسز،پاکستانی فوج اور انڈین فوج القاعدہ اور طالبان کو شکست دینے کےلیے متحد تھیں۔الیاس کشمیری ان کے اتحاد کو ختم کرنے کے عسکری منصوبے کے ساتھ سامنے آیا۔
بھارت اس کےمنصوبے کا مرکزی عنصر تھا،الیاس کشمیری کا مقصد بھارت میں موجود جہادی نیٹ ورک تک مکمل رسائی اور اسے القاعدہ کی سٹریٹیجی اور نظریات کے مطابق ڈھالنے کا تھا۔بھارت کے اندر آئی ایس آئی کا قائم کردہ نیٹ ورک مضبوطی سے قائم تھا،مگر افغانستان پر حملے میں امریکہ کے ساتھ اتحاد اور پاکستان پر دباؤ بڑھ جانے کے بعد یہ نیٹ ورک غیر فعال ہو گیا۔ کشمیری اس جہادی نیٹ ورک کو بھارت کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے جیسے منصوبوں کی طرف ہدایت دینے کا سوچا۔اس نے اندازہ لگایا کہ یہ حملہ دونوں ملکوں (پاکستان اور بھارت) کے درمیان تعلقات کو یہاں تک خراب کر دے گا کہ بھارت پاکستان کے خلاف عمل درآمد پر تیار ہو جائے گا۔الیاس کشمیری کے مطابق اس حکمت عملی کے تین ممکنہ نتائج ہو سکتے تھے:۔
٭عسکریت پسندوں کے خلاف بھارت،نیٹو اور پاکستان کا سٹریتجک اتحاد تحلیل ہو جائے گا۔
٭پاکستان اور بھارت کو آپسی تناز عے (لڑائی )میں پھنسا دیا جائے گا جس کے نتیجے میں پاکستا ن فوری طور پر اپنی افواج کو قبائل علاقوں سے کھینچ کر مغربی سرحدوں کی طرف لے آئے گا اور یہ سب عسکریت پسندوں کو افغانستان میں نیٹو فورسز پر حملے کے لیے آزاد چھوڑ دے گا۔
٭لڑائی کی صورت میں بھارت پاکستان کے سمندروں کو ازادنہ نقل و حمل کے لیے بلاک کر دے گا جس کے نتیجے میں بحیرہ عرب سے افغانستان میں موجود نیٹو فورسز کی سپلائی لائن کے لیے شدید مسائل پیدا ہو جائیں گے۔الیاس کشمیری بھارت کو ایک مستقل میدان جنگ(غزوہ ہند) میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا تھابالکل ویسے جیسے نوے کی دہائی میں پاکستان نے کیا تھا۔اس کا مقصد بہترین منصوبہ بندی سے تشکیل پانے والے ترتیب وار دہشت گرد حملوں کے ذریعے بھارت کو غیر مستحکم کرنا تھا۔پھر اس نے اس مشن کو مکمل کرنے کےلیے بھارت میں موجود آئی ایس آئی کے پرانے نیٹورکس کو پھر سے فعال کرنے کے لیے دوگنی قوت سےکام کرنے میں چند مہینے صرف کر دیے۔
الیاس کشمیری بھارت اور بنگلہ دیش میں موجود حرکت الجہاد اسلامی کے پرانے نیٹ ورکس سے روابط رکھتا تھا۔
روابط وہاں پہلے سے موجود تھے مگر انہیں مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے القاعدہ کی امداد کی ضرورت تھی۔اس سے پہلے حرکت الجہاد اسلامی کا نیٹ ورک زیادہ تر جنوبی ہندوستان مین آپریٹ کرتا تھا۔الیاس کشمیری نے پاکستانی جہادی نیٹ ورک کے ساتھ موجود اپنے روابط کو استعمال کیا اور بھارت میں موجود زیرزمین سیلز(انڈرگراؤنڈ سیلز) سے رابطہ استوار کیا۔
اس تناظر میں سب سے مفید رابطہ سیمی (سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا)سے ہوا۔پہلے پہل سیمی جماعت اسلامی ہندوستان کا سٹوڈنٹ ونگ تھی ،لیکن بعد میں اس نے جماعت اسلامی سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے۔سیمی(یاد رہے انڈین مجاہدین نامی جہادی تنظیم بھی سیمی کا عسکری ونگ ہے۔مترجم) اسامہ بن لادن کو اسلام کا ایک سچا مجاہد سمجھتی تھی۔الیاس کشمیری ان سب معاملات سے واقف تھا اس لیے اترپردیش اور دہلی تک رسائی حاصل کرنے کےلیے اس نے فوری طور ر پر ان (سیمی)سے تعلقات بڑھائے۔
26نومبر 2008 کے ممبئی حملے کشمیری کے پیچید منصوبے کا نتیجہ تھے جو اس نے اپنے ٹیم میمبرز کو جو کہ ریٹائرڈ آرمی افسران تھے کو کام سپرد کیا،جنہوں نے آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ کو دھوکے سے استعمال کیا۔
یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تصادم کروانے کےلیے کامل اور بہترین منصوبہ تھا۔لیکن واشنگٹن اس معاملے میں غالب رہا،امریکہ کی بروقت مداخلت نے دونوں ممالک کو آپس میں کھلی جنگ سے روک دیا۔
جب ممبئی حملے کے ذریعےجنگ شروع کروانے کی کوشش ناکام رہی تواس سے بڑا منصوبہ بنایا گیا جو ایک ہی وقت میں نیشنل ڈیفنس کالج دہلی اور بھارتی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا تھا۔مگر یہ منصوبہ بھی جنگ شروع کروانے میں ناکام رہا جب ڈیوڈ ہیڈلے (پاکستانی نژاد امریکی داؤود سید گیلانی) شکاگو میں (کوپن ہیگن میں نبی پاکﷺکے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے "جلینڈز پوسٹ" نامی اخبار پر حملہ کی منصوبہ بندی کے الزام میں -مترجم) پکڑا گیا اور الیاس کشمیری کے انڈین سیلز(جنہیں بھارت میں کاروائیوں کی ذمہ داری دی گئی تھی) پاکستان میں پکڑے گئے۔
غزوہء ہند جس کےلیے الیاس کشمیری نے پورا میدان جنگ تیار کر رکھا تھا وہ ابھی التوا کا شکار تھا۔اور جنگ سے پہلے طبل جنگ بجا دیا گیا۔پہلی بار الیاس کشمیری نے مجھے ایک خط ای میل کیا،جو کہ اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ای میل میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات کو دستاویزی شکل میں لکھا گیا تھا۔
الیاس کشمیری نے مجھے(سلیم شہزاد کو) اپنے خط میں لکھا۔
"ہم عالمی برادری کو متنبہ کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت کو حاصل کرنے اور بھارت کے کشمیر میں مظالم خاص طور پر بانڈی پورہ میں خواتین کی عصمت دری اور مسلمان قیدیوں سے غیر انسانی سلوک وغیرہ کی روک تھام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ہم عالمی برادری کو متنبہ کرتے ہیں کہ بھارت میں ہونے والے 2010 کے ہاکی ورلڈ کپ،آئی پی ایل(انڈین پریمیئر لیگ جس میں بین الاقوامی کرکٹ کھلاڑی حصہ لیتے ہیں) اور کامن ویلتھ گیمز (جو اسی سال دہلی میں ہونے والی تھیں) میں اپنے لوگوں کو شرکت سے روکیں۔اور نہ ہی ان کے ممالک کے باشندے بھارت میں سیروتفریح کی غرض سے آئیں ورنہ کسی بھی قسم کے نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔
ہم یعنی بریگیڈ 313 کے مجاہدین بھارت کے طول و عرض میں بھارت کے خلاف تب تک حملے جاری رکھیں گے جب تک کہ بھارتی فوج کشمیر کو چھوڑ نہیں دیتی اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت نہیں دیتی۔
ہم برصغیر کے مسلمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام اور بابری مسجد کا انہدام (ایک مسجد جسے شدت پسند ہندوؤں نے 1992 میں شہید کر دیا تھا)کبھی نہیں بھولیں گے۔پوری مسلم امت ایک جسم کی مانند ہے اور ہم تمام ناانصافیوں اور مظالم کا بدلہ لے کر رہیں گے۔
ہم دوبارہ بھارتی حکومت کو خبردارکرتے ہیں کہ اپنی تمام نا انصافیوں کا مداوا کریں ورنہ دوسری صورت میں ہماری اگلی کاروائی دیکھییں گے۔313بریگیڈ کی طرف سے"۔
(13فروری2010 کے "ایشیا ٹائمز آنلائن "سے)۔
الیاس کشمیری اس سے پہلے میڈیا سے تعامل نہیں رکھتا تھا۔اس حوالے سے سب سے پہلے اس نے مجھ سے تعامل(رابطہ) اختیار کیا جب 9اکتوبر2009 کو اس نے ایک انٹرویو میں ڈرون طیارے کے حملے کے نتیجے میں اپنی موت کی اطلاعات کا رد کیا۔اور اوپر ذکر کی گئی ای میل اس نے 13فروری2010 کو مجھے بھیجی تھی جو میڈیا کو جاری کیا گیا الیاس کشمیری کا پہلا بیان تھا۔یہ اس وقت لکھا گیا جب الیاس کشمیری نے اپنے غزوہءہند کے منصوبے کو حتمی شکل دے چکا تھا۔
الیاس کشمیری کی جنگی منصوبہ بندی کا دوسرا حصہ وسطی ایشیائی ریاسطوں میں بغاوت بھڑکانے کا تھاجہاں سے امریکی افواج کا متبادل سپلائی روٹ تھا اورشمالی افغانستان کی 15 فیصد نیٹو سپلائی کا راستہ تھا۔یہ ایک آسان کام تھا۔تمام وسطی ایشیائی باشندے پیدائشی جنگجو ہیں، پاکستانی اور افغانی قبائلیوں سے بھی زیادہ ۔
مگر وہ جدید وارفیئرکی تکنیکس سے لاعلم ہیں،جو کہ دشمن کے دماغ پڑھنے کی صلاحیت کےمبادیات میں سے ہے۔کشمیری نے وسطی ایشیائی باشندوں اور چیچنز کوتربیت دی(جس طرح اس نے اس سے پہلےافغان گوریلاؤں کو تربیت دی تھی) کہ کس طرح دشمن کی وردی اور دوسرے اوزار استعمال کرتے ہوئے دشمن ے علاقے میں گھسنا ہے۔
چیچن گوریلا جنگجوؤں کے مارچ 2010 میں ماسکو اور داغستان مین ہونے والے حملے الیاس کشمیری کی ٹریننگ کا نتیجہ تھے۔
الیاس کشمیری نے چیچن،ازبک،یوغیر(چینی ترکستانی باشندے)،تاجک اور ترک جنگجوؤں کے لیے ضروری تربیتی پروگرام ترتیب دیا،جس میں سب سے پہلے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی،،فوری جواب(ریسپانس)،اور جدید افواج کے اسٹریتجک اصولوں(آرمی ڈاکٹرائنز) سے معارف کرایا۔
تربیتی پروگرام کا دوسرا حصہ جدید گوریلا جنگ سے متعلق تھا۔یہ تکنیکی حربے کشمیری اس سے پہلے افغانستان اور (مقبوضہ )کشمیر میں آزما چکا تھا۔
کشمیری دشمن کے دماغ کو پڑھنے کی زبردست صلاحیت رکھتا تھا اور دشمن کی پہنچ سے دور علاقوں میں گوریلا جنگجوؤں کی رہنمائی کرنا جانتا تھا مگر کشمیری نے ہمیشہ پہلے آزمائشی جنگی طریقے اپنائے(جیسا کہ سیریل بم دھماکے) تاکہ سیکیورٹی فورسز کی طرف سے جواب کےوقت (ریسپانس ٹائم)اور متحرک ہونے کے طریقہ کار کو جانچا جا سکے۔
اس کے بعد وہ اس طریقہ کار کے مطابق منصوبہ بندی کرتا تھا۔کشمیری نے جب ان گوریلا جنگجوؤں کو مکمل تربیت یافتہ جنگجو بنا دیا تو پھر ان کو ترکی کے ذریعے اپنے ملکوں میں واپسی کی طرف ابھارا(تاکہ منصوبے پر عمل درآمد ممکن ہو سکے)۔
کشمیری کے جنگی منصوبے میں افغانستان اور پاکستان کا قبائلی علاقہ ہی مرکزی جنگی میدان کی حیشیت رکھتے تھے یہاں تک کہ بھارتی اور وسطی ایشیائی ممالک کے جنگجوؤں نے اپنے متعلقہ علاقوں میں حملے شروع کر دیے۔الیاس کشمیری کا خیال تھا کہ جونہی یہ جنگجو اپنے متعلقہ علاقوں میں جگہ بنا لیتے ہیں تو وسطی ایشیا کی طرف ہندوکش کے پہاڑی دروں سے (جنگجوؤں کی منتقلی)شروع ہو جائے گی۔
اسی طرح بحیرہ عرب اور پاکستان و بنگلہ دیشی سرحدوں سےدراندازی وغیرہ کے ذریعے جنگ کا میدان بھارت تک وسیع ہو جائے گا۔
ایمن الظواہری الیاس کشمیری کا منصوبہ اور اس کی تفصیلات سن کر حیران رہ گئے۔القاعدہ نے قرب قیامت کی لڑائیوں کےلیے مختلف وار زونز تشکیل دینےکی کوشش کی مگر اس پہیلی کے تمام ٹکڑوں کو آپس میں مربوط کرنے میں ناکام رہے۔اب یہ کام الیاس کشمیری کے حوالے کر دیا گیا اور کشمیری کے پاس بھارت میں ایسے وسائل موجود تھے جو اس کام کو آسان بنا سکتے تھے۔اس لیے القاعدہ نے الیاس کشمیری کو اپنی عسکری کمیٹی(ملٹری کمیٹی) کا ہیڈ بنادیا تاکہ سب سے پہلے وہ غزوہء ہند کے منصوبے کو حتمی شکل دے اور پھر وسطی ایشیائی جنگجوؤں سے رابطہ قائم کرے۔
الیاس کشمیری کے 313 بریگیڈ نے 2010 میں پونے(ایک بھارتی شہر) میں بم حملے کیے۔ایمن الظواہری اس کاروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کےلیے ویڈیو نشر کرنے والے تھے کہ پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پونے بم حملے کوئی ایسی قابل ذکر کاروائی نہیں ہے کہ بھارتی کے جنگی تھیٹر میں القاعدہ کی آمد کا اعلان کیا جاسکے اس لیے القاعدہ خاموش رہی۔اس وجہ سے ایک نامعلوم تنظیم "لشکر طیبہ العالمی" نے ای میل کے ذریعے اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مستقبل میں بھارت میں ہونے والی تمام کاروائیوں کی ذمہ داری القاعدہ کی جانب سے قبول کی جائے گی تاکہ بھارت میں جہادی گروہوں کو اس طرح متحرک کیا جا سکے کہ وہ افغانستان،پاکستان اور مقبوضہ کشمیر طرز کی کاروائیاں کر سکیں۔
یہ "آئی ایس آئی" کاحرکت الجہاد اسلامی،جماعت اسلامی،اخوان المسلمون،اسلامی مدارس اور صوفیوں کے ساتھ ملکر بنایا جانے والا 30 سال پرانا منصوبہ تھا کہ کس طرح سوویت یونین کو شکست دینے اور مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کےلیے وسطی ایشیا سے لے کر بنگلہ دیش تک ایک وار تھیٹر قائم کیا جائے۔ 30سال بعدالقاعدہ نے اپنی نظریاتی حدود مقرر کرنے کےبعد آسانی سے اس منصوبے کی تجدید نو کی تاکہ وسط ایشیا (شام اور گردونواح کے ممالک)میں مغربی دنیا سے حتمی و آخری لڑائی کےلیے اپنی افواج بھیجنےاور سیاہ پرچم لہرانے سے پہلے خراسان اور غزوہءہند کے عظیم جنگی میادین کو کامیابی کےلیے تیار کیا جاسکے۔
دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ سے متعلقہ حقائق جاننے کے لیے ہمارے پیج کو لائک کیجئے۔شکریہ
Facebook.com/insideaq

No comments:

Post a Comment