Saturday, December 19, 2015

سلیم شہزاد کے قتل کی وجہ!


سلیم شہزاد شہید نے مہران ائیربیس پر حملے کے بعد ایک کالم لکھا تھا جو آئی ایس آئی کے ہاتھوں ان کے اغوا اور قتل کا باعث بنا۔شہید سلیم شہزاد نے یہ لکھا تھا کہ پاکستان نیوی کے اندر القاعدہ (کی ذیلی تنظیم 313 بریگیڈ وغیرہ) کے کئی جہادی سیلز کام کر رہے ہیں اور کئی نیوی افسران اور اہلکار القاعدہ سے تعلق کے الزام میں پکڑے گئے۔
سلیم شہزاد کی پیش کردہ رپورٹس کی سچائی اب مزید واضح ہوتی جارہی ہے۔آج سے ایک سال پہلے تقریبا 6 ستمبر کو القاعدہ کی برصغیر میں نئی شاخ القاعدہ برصغیر نے اپنے قیام کے اعلان کے فورا بعد ایک بہت بڑی کاروائی ترتیب دی حملے کا منصوبہ پاکستانی بحریہ(پی این ایس ذوالفقار) کے جہازوں کو استعمال کرتے ہوئے امریک اور بھارتی بحری جنگی جہازوں کو نشانہ بنانا تھا۔کاروائی اگرچہ کامیاب نہیں ہوئی مگر اطلاعات کے مطابق پاکستانی جہازوں کے اندر کئی گھنٹے طویل لڑائی جاری رہی۔حتمی نقصانات کا علم تاحال نہیں ہو سکا۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حملہ کرنے والے جہادی کوئی اور نہیں پاکستان نیوی کے افسران اور اہلکار ہی تھے جنہوں نے وزیرستان میں القاعدہ سے خصوصی عسکری تربیت لی اور القاعدہ کمانڈروں سے ملکر منصوبہ ترتیب دیا اور عمل درآمد بھی کیا۔ان حملہ آوروں کے سربراہ لیفٹینینٹ زیشان رفیق سے متعلق ایک تعارفی فلم القاعدہ برصغیر کے آفیشل میڈیا ادارہ السحاب برصغیر نے جاری کی ہے۔اس کاروائی کی مکمل تفصیلات سے متعلق ویڈیو عنقریب نشر کرنے کا پیغام بھی دیا ہے(اس کاروائی کی مکمل تفصیلات پر مشتمل یہ ویڈیو معرکہ شیخ اسامہ کے نام سے  نشر ہو چکی ہے)۔
اس کالم کا لنک جو سلیم شہزاد کی شہادت کا باعث بنا
"Al-Qaeda had warned of Pakistani strike"
http://www.atimes.com/atimes/South_Asia/ME27Df06.html

حرکت الجہاد الاسلامی :"آئی ایس آئی" سے "القاعدہ "

معروف صحافی سلیم شہزاد کی کتاب "انسائیڈ القاعدہ اینڈ طالبان" سے منتختب ایک مضمون کا مکمل ترجمہ و تلخیص

حرکت الجہاد الاسلامی :"آئی ایس آئی" سے "القاعدہ "۔

سنہ دو ہزار پانچ میں حرکت الجہاد الاسلامی کے مضبوط آپریشنل کمانڈر محمد الیاس کشمیری کو آئی ایس آئی کی جیل سے دوسری مرتبہ رہائی کے بعد یہ یقین ہو گیا تھا کہ امریکی دباؤ نےپاکستانی فوج کی خطے میں سپریم سٹریٹجک فورس کے طور پر کردار ادا کرنے کی نائن الیون سے پہلے والی صلاحیت کو مستقل طور پرغیر فعال کر دیا ہے۔اس لیے اس نےکشمیر میں اپنی جدوجہد ترک کرکے افغانستان میں منتقل ہوکر لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔الیاس کشمیری افغانستان سے پہلے سے ہی واقف تھا۔جب کشمیر جانے سے پہلے اس نے وہاں روس دور (1980 کی دہائی ) میں اپنی پہلی عسکری تربیت مکمل کی تھی اور روس کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔
اس نے اپنے خاندان کو لیا اور شمالی وزیرستان منتقل ہو گیا۔ان کا ابتدائی مقصد افغان طالبان کے شانہ بشانہ نیٹو فورسز کے خلاف لڑنے کا تھا۔تاہم،بین الاقوامی جہادی نیٹورک کے ساتھ زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آگئی۔اب وہ صرف کشمیر کی آزادی کا خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔اس کی بھارت کے خلاف کشمیر کی آزادی کی جدوجہد ایک متحرک قوت کے طور پر موجود رہی، مگر اب یہ وسیع ہو کر ایک عالمی اسلامی جنگی نقطہ نظر پر محیط ہو گئی تھا۔
شمالی وزیرستان کا چھوٹا سا شہر رزمک اس کا نیا گھر بن گیا تھا،کشمیری اب وہاں پر عسکری تربیتی قائم کر رہا تھا۔کشمیری ایک کرشماتی کمانڈر تھا جس نے پورے بھارت میں اپنی کاروائیوں کے ذریعے بھارتی فوج کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا تھا۔الیاس کشمیری جہادی کیمیونٹی کے ساتھ بہت اچھے روابط رکھتا تھا،اس لیے اس کی وزیرستان مین موجودگی سینکڑوں جہادیوں کی کشمیر سے افغانستان آمد کا سبب بنی۔ان جنگجوؤں نے کشمیر میں اپنی جدوجہد کو ترک کر دیا اور شمالی وزیرستان منتقل ہو گئے تاکہ افغانستان میں نیٹو فورسز کے خلاف عسکری کاروائیاں کر سکیں۔
سنہ 2006 میں کشمیری کے عسکری کیمپ نے سب کو متاثر کیا۔اب اس کے پاس پاک فوج کے کے ریٹائرڈ آرمی افسران،اہم جہادی تنظیموں کے سابق کمانڈرز ،اور اس کی اپنی 313 بریگیڈ کے "آئی ایس آئی "کے کشمیری سیلز سے تربیت پانے والے خونی جنگجو موجود تھے۔القاعدہ رہنما مصطفیٰ ابویزید اور ابو ولید انصاری اور شیخ عیسیٰ الیاس کشمیری کے قریب ہوئے اور اس کی سوچ،نظریات اور فکر کو متاثر کیا۔
ان القاعدہ رہنماؤں کا پہلے دوسرے پاکستانی جہادی کمانڈروں جن میں فضل الرحمٰن خلیل(حرکت المجاہدین)،مسعود اظہر(جیش محمد) اور عبداللہ شاہ مظہر شامل ہیں سے تعلق رہا تھا مگر انہیں یہ احساس تھا کہ یہ جہادی کمانڈرز پاکستانی ایجنسی(آئی ایس آئی) کی طرف سے تعمیر کردہ فولادی پنجرے سے نہیں نکل سکتے۔ان کا خیال تھا کہ پاکستانی جہادی کمانڈرز کبھی بھی ان تزویراتی سرحدوں سے باہر نہیں سوچ سکتے جو انکے ذہنوں میں آئی ایس آئی نے ڈال رکھی تھیں۔وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مقامی قبائلی کمانڈرز بھی قبائلی اور پشتون روایات کا شکار تھے۔اس لیے وہ بھی افغان اور پشتون سرحدوں سے باہر نہیں سوچ سکتے۔
تاہم الیاس کشمیری ان سب سے مختلف تھا۔وہ ایک اختراعی ذہن رکھتا تھا۔اس نے کشمیر میں انڈیا کیخلاف پاکستانی فوج سے ملکر کام کرتے ہوئے ڈسپلن قائم رکھا اور اس تناظر میں پاکستانی فوج کی حکمت عملی پر سختی سے عمل کیا۔تاہم پاکستانی فوج کو قابل قدر امداد دینے کے باوجود اس نے اپنا آپریشنل طریقہ کار وضع کر رکھا تھا تاکہ مستقبل کے سٹریٹجک آپشنز پر عمل درآمد اسان ہو سکے۔کشمیری حقیقی مفکر تھا۔وہ جھکنا نہیں جانتا تھا بلکہ جو کچھ وہ کرتا تھا وہ اس کے غوروفکرکا نتیجہ تھا۔
رزمک میں اس کے القاعدہ سے تعلقات نے اس کےتخیلات کو مزید سلگا دیا۔الیاس کشمیری کو القاعدہ اور القاعدہ کو الیاس کشمیری مل گیا تھااور القاعدہ نے جان لیا کہ کشمیری اور القاعدہ دونوں ایک ہی ویو لینگتھ پر تھے۔القاعدہ کے اتنے قریب آنے والوں غیر عربوں میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔چند مہینوں میں الیاس کشمیری نے القاعدہ کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اسے اپنے اندرونی دائرے میں لانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔سنہ 2007 میں الیاس کشمیری القاعدہ شوریٰ کا باقاعدہ رکن بن چکا تھا۔
سنہ 2007 کے اواخر میں الیاس کشمیری ایک جامع جنگ کے منصوبے کے ساتھ سامنے آیا جس نے خود القاعدہ کو بھی حیران کر دیا۔اس نے قرب قیامت میں مشرق میں برپا ہونے والی جنگوں (غزوہء ہند) سے متعلق اپنا تصور پیش کیا،،جسے القاعدہ کے بہترین عسکری دماغوں نے سوچا تو تھا مگر اس پر عمل درآمد کا کوئی راستہ نطر نہیں آیا تھا۔کشمیری نے اس پر اپنا مقالہ (منصوبہ)پیش کیا۔اس وقت نیٹوفورسز،پاکستانی فوج اور انڈین فوج القاعدہ اور طالبان کو شکست دینے کےلیے متحد تھیں۔الیاس کشمیری ان کے اتحاد کو ختم کرنے کے عسکری منصوبے کے ساتھ سامنے آیا۔
بھارت اس کےمنصوبے کا مرکزی عنصر تھا،الیاس کشمیری کا مقصد بھارت میں موجود جہادی نیٹ ورک تک مکمل رسائی اور اسے القاعدہ کی سٹریٹیجی اور نظریات کے مطابق ڈھالنے کا تھا۔بھارت کے اندر آئی ایس آئی کا قائم کردہ نیٹ ورک مضبوطی سے قائم تھا،مگر افغانستان پر حملے میں امریکہ کے ساتھ اتحاد اور پاکستان پر دباؤ بڑھ جانے کے بعد یہ نیٹ ورک غیر فعال ہو گیا۔ کشمیری اس جہادی نیٹ ورک کو بھارت کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے جیسے منصوبوں کی طرف ہدایت دینے کا سوچا۔اس نے اندازہ لگایا کہ یہ حملہ دونوں ملکوں (پاکستان اور بھارت) کے درمیان تعلقات کو یہاں تک خراب کر دے گا کہ بھارت پاکستان کے خلاف عمل درآمد پر تیار ہو جائے گا۔الیاس کشمیری کے مطابق اس حکمت عملی کے تین ممکنہ نتائج ہو سکتے تھے:۔
٭عسکریت پسندوں کے خلاف بھارت،نیٹو اور پاکستان کا سٹریتجک اتحاد تحلیل ہو جائے گا۔
٭پاکستان اور بھارت کو آپسی تناز عے (لڑائی )میں پھنسا دیا جائے گا جس کے نتیجے میں پاکستا ن فوری طور پر اپنی افواج کو قبائل علاقوں سے کھینچ کر مغربی سرحدوں کی طرف لے آئے گا اور یہ سب عسکریت پسندوں کو افغانستان میں نیٹو فورسز پر حملے کے لیے آزاد چھوڑ دے گا۔
٭لڑائی کی صورت میں بھارت پاکستان کے سمندروں کو ازادنہ نقل و حمل کے لیے بلاک کر دے گا جس کے نتیجے میں بحیرہ عرب سے افغانستان میں موجود نیٹو فورسز کی سپلائی لائن کے لیے شدید مسائل پیدا ہو جائیں گے۔الیاس کشمیری بھارت کو ایک مستقل میدان جنگ(غزوہ ہند) میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا تھابالکل ویسے جیسے نوے کی دہائی میں پاکستان نے کیا تھا۔اس کا مقصد بہترین منصوبہ بندی سے تشکیل پانے والے ترتیب وار دہشت گرد حملوں کے ذریعے بھارت کو غیر مستحکم کرنا تھا۔پھر اس نے اس مشن کو مکمل کرنے کےلیے بھارت میں موجود آئی ایس آئی کے پرانے نیٹورکس کو پھر سے فعال کرنے کے لیے دوگنی قوت سےکام کرنے میں چند مہینے صرف کر دیے۔
الیاس کشمیری بھارت اور بنگلہ دیش میں موجود حرکت الجہاد اسلامی کے پرانے نیٹ ورکس سے روابط رکھتا تھا۔
روابط وہاں پہلے سے موجود تھے مگر انہیں مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے القاعدہ کی امداد کی ضرورت تھی۔اس سے پہلے حرکت الجہاد اسلامی کا نیٹ ورک زیادہ تر جنوبی ہندوستان مین آپریٹ کرتا تھا۔الیاس کشمیری نے پاکستانی جہادی نیٹ ورک کے ساتھ موجود اپنے روابط کو استعمال کیا اور بھارت میں موجود زیرزمین سیلز(انڈرگراؤنڈ سیلز) سے رابطہ استوار کیا۔
اس تناظر میں سب سے مفید رابطہ سیمی (سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا)سے ہوا۔پہلے پہل سیمی جماعت اسلامی ہندوستان کا سٹوڈنٹ ونگ تھی ،لیکن بعد میں اس نے جماعت اسلامی سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے۔سیمی(یاد رہے انڈین مجاہدین نامی جہادی تنظیم بھی سیمی کا عسکری ونگ ہے۔مترجم) اسامہ بن لادن کو اسلام کا ایک سچا مجاہد سمجھتی تھی۔الیاس کشمیری ان سب معاملات سے واقف تھا اس لیے اترپردیش اور دہلی تک رسائی حاصل کرنے کےلیے اس نے فوری طور ر پر ان (سیمی)سے تعلقات بڑھائے۔
26نومبر 2008 کے ممبئی حملے کشمیری کے پیچید منصوبے کا نتیجہ تھے جو اس نے اپنے ٹیم میمبرز کو جو کہ ریٹائرڈ آرمی افسران تھے کو کام سپرد کیا،جنہوں نے آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ کو دھوکے سے استعمال کیا۔
یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تصادم کروانے کےلیے کامل اور بہترین منصوبہ تھا۔لیکن واشنگٹن اس معاملے میں غالب رہا،امریکہ کی بروقت مداخلت نے دونوں ممالک کو آپس میں کھلی جنگ سے روک دیا۔
جب ممبئی حملے کے ذریعےجنگ شروع کروانے کی کوشش ناکام رہی تواس سے بڑا منصوبہ بنایا گیا جو ایک ہی وقت میں نیشنل ڈیفنس کالج دہلی اور بھارتی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا تھا۔مگر یہ منصوبہ بھی جنگ شروع کروانے میں ناکام رہا جب ڈیوڈ ہیڈلے (پاکستانی نژاد امریکی داؤود سید گیلانی) شکاگو میں (کوپن ہیگن میں نبی پاکﷺکے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے "جلینڈز پوسٹ" نامی اخبار پر حملہ کی منصوبہ بندی کے الزام میں -مترجم) پکڑا گیا اور الیاس کشمیری کے انڈین سیلز(جنہیں بھارت میں کاروائیوں کی ذمہ داری دی گئی تھی) پاکستان میں پکڑے گئے۔
غزوہء ہند جس کےلیے الیاس کشمیری نے پورا میدان جنگ تیار کر رکھا تھا وہ ابھی التوا کا شکار تھا۔اور جنگ سے پہلے طبل جنگ بجا دیا گیا۔پہلی بار الیاس کشمیری نے مجھے ایک خط ای میل کیا،جو کہ اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ای میل میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات کو دستاویزی شکل میں لکھا گیا تھا۔
الیاس کشمیری نے مجھے(سلیم شہزاد کو) اپنے خط میں لکھا۔
"ہم عالمی برادری کو متنبہ کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت کو حاصل کرنے اور بھارت کے کشمیر میں مظالم خاص طور پر بانڈی پورہ میں خواتین کی عصمت دری اور مسلمان قیدیوں سے غیر انسانی سلوک وغیرہ کی روک تھام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ہم عالمی برادری کو متنبہ کرتے ہیں کہ بھارت میں ہونے والے 2010 کے ہاکی ورلڈ کپ،آئی پی ایل(انڈین پریمیئر لیگ جس میں بین الاقوامی کرکٹ کھلاڑی حصہ لیتے ہیں) اور کامن ویلتھ گیمز (جو اسی سال دہلی میں ہونے والی تھیں) میں اپنے لوگوں کو شرکت سے روکیں۔اور نہ ہی ان کے ممالک کے باشندے بھارت میں سیروتفریح کی غرض سے آئیں ورنہ کسی بھی قسم کے نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔
ہم یعنی بریگیڈ 313 کے مجاہدین بھارت کے طول و عرض میں بھارت کے خلاف تب تک حملے جاری رکھیں گے جب تک کہ بھارتی فوج کشمیر کو چھوڑ نہیں دیتی اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت نہیں دیتی۔
ہم برصغیر کے مسلمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام اور بابری مسجد کا انہدام (ایک مسجد جسے شدت پسند ہندوؤں نے 1992 میں شہید کر دیا تھا)کبھی نہیں بھولیں گے۔پوری مسلم امت ایک جسم کی مانند ہے اور ہم تمام ناانصافیوں اور مظالم کا بدلہ لے کر رہیں گے۔
ہم دوبارہ بھارتی حکومت کو خبردارکرتے ہیں کہ اپنی تمام نا انصافیوں کا مداوا کریں ورنہ دوسری صورت میں ہماری اگلی کاروائی دیکھییں گے۔313بریگیڈ کی طرف سے"۔
(13فروری2010 کے "ایشیا ٹائمز آنلائن "سے)۔
الیاس کشمیری اس سے پہلے میڈیا سے تعامل نہیں رکھتا تھا۔اس حوالے سے سب سے پہلے اس نے مجھ سے تعامل(رابطہ) اختیار کیا جب 9اکتوبر2009 کو اس نے ایک انٹرویو میں ڈرون طیارے کے حملے کے نتیجے میں اپنی موت کی اطلاعات کا رد کیا۔اور اوپر ذکر کی گئی ای میل اس نے 13فروری2010 کو مجھے بھیجی تھی جو میڈیا کو جاری کیا گیا الیاس کشمیری کا پہلا بیان تھا۔یہ اس وقت لکھا گیا جب الیاس کشمیری نے اپنے غزوہءہند کے منصوبے کو حتمی شکل دے چکا تھا۔
الیاس کشمیری کی جنگی منصوبہ بندی کا دوسرا حصہ وسطی ایشیائی ریاسطوں میں بغاوت بھڑکانے کا تھاجہاں سے امریکی افواج کا متبادل سپلائی روٹ تھا اورشمالی افغانستان کی 15 فیصد نیٹو سپلائی کا راستہ تھا۔یہ ایک آسان کام تھا۔تمام وسطی ایشیائی باشندے پیدائشی جنگجو ہیں، پاکستانی اور افغانی قبائلیوں سے بھی زیادہ ۔
مگر وہ جدید وارفیئرکی تکنیکس سے لاعلم ہیں،جو کہ دشمن کے دماغ پڑھنے کی صلاحیت کےمبادیات میں سے ہے۔کشمیری نے وسطی ایشیائی باشندوں اور چیچنز کوتربیت دی(جس طرح اس نے اس سے پہلےافغان گوریلاؤں کو تربیت دی تھی) کہ کس طرح دشمن کی وردی اور دوسرے اوزار استعمال کرتے ہوئے دشمن ے علاقے میں گھسنا ہے۔
چیچن گوریلا جنگجوؤں کے مارچ 2010 میں ماسکو اور داغستان مین ہونے والے حملے الیاس کشمیری کی ٹریننگ کا نتیجہ تھے۔
الیاس کشمیری نے چیچن،ازبک،یوغیر(چینی ترکستانی باشندے)،تاجک اور ترک جنگجوؤں کے لیے ضروری تربیتی پروگرام ترتیب دیا،جس میں سب سے پہلے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی،،فوری جواب(ریسپانس)،اور جدید افواج کے اسٹریتجک اصولوں(آرمی ڈاکٹرائنز) سے معارف کرایا۔
تربیتی پروگرام کا دوسرا حصہ جدید گوریلا جنگ سے متعلق تھا۔یہ تکنیکی حربے کشمیری اس سے پہلے افغانستان اور (مقبوضہ )کشمیر میں آزما چکا تھا۔
کشمیری دشمن کے دماغ کو پڑھنے کی زبردست صلاحیت رکھتا تھا اور دشمن کی پہنچ سے دور علاقوں میں گوریلا جنگجوؤں کی رہنمائی کرنا جانتا تھا مگر کشمیری نے ہمیشہ پہلے آزمائشی جنگی طریقے اپنائے(جیسا کہ سیریل بم دھماکے) تاکہ سیکیورٹی فورسز کی طرف سے جواب کےوقت (ریسپانس ٹائم)اور متحرک ہونے کے طریقہ کار کو جانچا جا سکے۔
اس کے بعد وہ اس طریقہ کار کے مطابق منصوبہ بندی کرتا تھا۔کشمیری نے جب ان گوریلا جنگجوؤں کو مکمل تربیت یافتہ جنگجو بنا دیا تو پھر ان کو ترکی کے ذریعے اپنے ملکوں میں واپسی کی طرف ابھارا(تاکہ منصوبے پر عمل درآمد ممکن ہو سکے)۔
کشمیری کے جنگی منصوبے میں افغانستان اور پاکستان کا قبائلی علاقہ ہی مرکزی جنگی میدان کی حیشیت رکھتے تھے یہاں تک کہ بھارتی اور وسطی ایشیائی ممالک کے جنگجوؤں نے اپنے متعلقہ علاقوں میں حملے شروع کر دیے۔الیاس کشمیری کا خیال تھا کہ جونہی یہ جنگجو اپنے متعلقہ علاقوں میں جگہ بنا لیتے ہیں تو وسطی ایشیا کی طرف ہندوکش کے پہاڑی دروں سے (جنگجوؤں کی منتقلی)شروع ہو جائے گی۔
اسی طرح بحیرہ عرب اور پاکستان و بنگلہ دیشی سرحدوں سےدراندازی وغیرہ کے ذریعے جنگ کا میدان بھارت تک وسیع ہو جائے گا۔
ایمن الظواہری الیاس کشمیری کا منصوبہ اور اس کی تفصیلات سن کر حیران رہ گئے۔القاعدہ نے قرب قیامت کی لڑائیوں کےلیے مختلف وار زونز تشکیل دینےکی کوشش کی مگر اس پہیلی کے تمام ٹکڑوں کو آپس میں مربوط کرنے میں ناکام رہے۔اب یہ کام الیاس کشمیری کے حوالے کر دیا گیا اور کشمیری کے پاس بھارت میں ایسے وسائل موجود تھے جو اس کام کو آسان بنا سکتے تھے۔اس لیے القاعدہ نے الیاس کشمیری کو اپنی عسکری کمیٹی(ملٹری کمیٹی) کا ہیڈ بنادیا تاکہ سب سے پہلے وہ غزوہء ہند کے منصوبے کو حتمی شکل دے اور پھر وسطی ایشیائی جنگجوؤں سے رابطہ قائم کرے۔
الیاس کشمیری کے 313 بریگیڈ نے 2010 میں پونے(ایک بھارتی شہر) میں بم حملے کیے۔ایمن الظواہری اس کاروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کےلیے ویڈیو نشر کرنے والے تھے کہ پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پونے بم حملے کوئی ایسی قابل ذکر کاروائی نہیں ہے کہ بھارتی کے جنگی تھیٹر میں القاعدہ کی آمد کا اعلان کیا جاسکے اس لیے القاعدہ خاموش رہی۔اس وجہ سے ایک نامعلوم تنظیم "لشکر طیبہ العالمی" نے ای میل کے ذریعے اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مستقبل میں بھارت میں ہونے والی تمام کاروائیوں کی ذمہ داری القاعدہ کی جانب سے قبول کی جائے گی تاکہ بھارت میں جہادی گروہوں کو اس طرح متحرک کیا جا سکے کہ وہ افغانستان،پاکستان اور مقبوضہ کشمیر طرز کی کاروائیاں کر سکیں۔
یہ "آئی ایس آئی" کاحرکت الجہاد اسلامی،جماعت اسلامی،اخوان المسلمون،اسلامی مدارس اور صوفیوں کے ساتھ ملکر بنایا جانے والا 30 سال پرانا منصوبہ تھا کہ کس طرح سوویت یونین کو شکست دینے اور مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کےلیے وسطی ایشیا سے لے کر بنگلہ دیش تک ایک وار تھیٹر قائم کیا جائے۔ 30سال بعدالقاعدہ نے اپنی نظریاتی حدود مقرر کرنے کےبعد آسانی سے اس منصوبے کی تجدید نو کی تاکہ وسط ایشیا (شام اور گردونواح کے ممالک)میں مغربی دنیا سے حتمی و آخری لڑائی کےلیے اپنی افواج بھیجنےاور سیاہ پرچم لہرانے سے پہلے خراسان اور غزوہءہند کے عظیم جنگی میادین کو کامیابی کےلیے تیار کیا جاسکے۔
دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ سے متعلقہ حقائق جاننے کے لیے ہمارے پیج کو لائک کیجئے۔شکریہ
Facebook.com/insideaq

Friday, December 18, 2015

طالبان اور آئی ایس آئی (1)

جس دن طالبان کی تحریک شروع ہوئی اسی دن سے اس کے متعلق مختلف قسم کے پراپیگنڈے کی بھی ابتداء ہوئی ۔یہ سب مختلف گروہوں نے مختلف مقاصد کے لیے کیا۔ان میں سے ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ طالبان کی تحریک پاکستانی ایجنسی(آئی ایس آئی) کی طرف سے شروع کرائی گئی اور آج تک طالبان آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔اور کثریت اس دعوے کو سچ سمجھتی ہے۔آج ہم غیرجانبدارانہ طریقےسےسچ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اس کےلیے ضروری ہے کہ ہمارے قارئین بھی حقائق کو تسلیم کرنے کی ہمت رکھیں۔
طالبان تحریک کی ابتداء:افغانستان سے روس کے انخلا کے بعدافغانستان میں مختلف جہادی تنظیموں اورجنگجو گروہوں نے اقتدار و قبضے کے لیے آپسی لڑائی شروع کر دی۔ان میں سے اکثر وہی جہادی تنظیمیں تھیں جو روس کے خلاف لڑائی کے دوران مختلف ایجنسیوں سے مکمل رابطے میں رہیں۔ایجنسیوں نے اپنے مفادات کی خاطر ان تنظیموں کو آپس میں لڑوا دیا۔اس خانہ جنگی کے ماحول میں جہادیوں کے بڑی تعداد ان سب سے بے زار ہو کر واپس اپنے گھروں میں لوٹ گئی۔حالات دن بدن خراب ہوتے گئے۔ملا عمر بھی انہی جنگجوؤں میں سے تھے جنہوں نے آپسی خانہ جنگی کے باعث میدان جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور ایک مدرسہ کھول لیا جہاں درس و تدریس شروع کر دی۔مقامی جنگجو کمانڈروں نے آپس میں علاقے بانٹے ہوئے تھے۔اور ان علاقوں میں عوام پر ہر قسم کا ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے تھے۔جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو ملا عمر نے اپنے مدرسے کو بند کر دیا اور اپنے ساتھی کو لے کر مختلف مدارس میں دورے شروع کر دیے تاکہ طلبا کو ان جنگجو کمانڈرز کے خلا ف لڑنے کےلیے تیار کیا جا سکے۔کئی طلبا تیار ہو گئے مشاورت کے بعد گاڑیاں اور اسلحہ اکٹھا کیا گیا اور 24 جون 1994 بروز جمعۃ المبارک صوبہ قندھار میں ضلع ڈنڈ اور پنجوائی کے درمیان سڑک پر موجود ایک چیک پوسٹ پر 12 مسلح طالبان نے حملہ کر دیا۔مقامی کمانڈر پکڑا گیا اور اسکے 20 جنگجو مارے گئے۔ ایسی چیک پوسٹس پورے افغانستان میں تھیں ان جیسے مختلف عسکری مواقع یعنی چیک پوائنٹس،تھانوں اور چھاؤنیوں کی فتح سے ہی طالبان کو مختلف قسم کا اسلحہ و سازوسامان ملا(طالبان کو ملنے والا اکثر اسلحہ ان عسکری فتوحات سے ہی ملتا ہے اور آج تک یہی صورتحال ہے باقی کا اسلحہ یا تو خود بنایا جاتا ہے یا پھر مختلف ذرائع یا سمگلرز سے خریدا جاتا ہے لیکن بہر حال ان سب معاملات میں کوئی ملک یا ایجنسی براہ راست مدد گار نہیں ہے)جن سے آگے کی کاروائیاں آسان ہوتی رہیں۔11 نومبر کو پہلا شہر سپن بولدک فتح ہوا(13 نومبر 1994 کو قندھار فتح ہوا اور تحریک کامیابی سے جاری رہی روس دور کے پرانے جہادی جنگجو اور طلباء ساتھ شامل ہوتے رہے مسلسل مختلف صوبے فتح ہوتے گئے27 ستمبر 1996 کو کابل بھی فتح ہو گیا اور سابق صدر نجیب اللہ کو بھی قتل کر دیا گیا)۔ یعنی طالبان تحریک کسی ایجنسی کی سرپرستی سے نہیں شروع ہوئی بلکہ یہ افغانستان کے داخلی مسائل کا رد عمل تھی جو کہ اسلامی نطام کے بزور قوت نفاذ کا نعرہ لگا کر کھڑی ہوئی اور پورے افغانستان میں پھیل گئی۔ طالبان تحریک کے تمام سربراہ روس کے خلاف جہاد میں بھی بڑے عہدے پر فائز نہیں رہا بلکہ تمام لوگ ان آپسی لڑئیوں ،دولت اور شہرت سے بے نیاز رہنے والے سادہ و درویش صفت جنگجو یا درمیانے درجے کے کمانڈر تھے سوائے جلال الدین حقانی کے جو کہ خود بہت بڑے کمانڈر تھے اور روس کے خلا ف لڑائی کے ابتدائی دور سے ہی لڑ رہے تھے جب انٹیلیجنس ایجنسیوں نے افغانستان کا رخ ہی نہیں کیا تھا( بعد میں سنہ 85 کے قریب جب افغانستان میں روس کی شکست کے آثار نظر آنے لگے تو عالمی انٹیلیجینس اداروں نے اپنے مفادات کی خاطر افغانستان کا رخ کر لیا جو افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جہادی تنظیموں اور گروہوں کی آپسی لڑائی پر منتج ہوا)۔طالبان تحریک جب شروع ہوئی تو پاکستانی انتیلیجینس اداروں کو (پہلے چند ماہ تک)علم ہی نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کے مطابق اس وقت تک آئی ایس آئی طالب لفظ کا معنی بھی نہیں جانتی تھی اور پاکستانی ایجنسیاں انہیں امریکہ کا ایجنٹ سمجھ رہی تھیں پھر چند ماہ بعد معلومات حاصل کرنے کے لیے کرنل ریٹائرد امام کو افغانستان میں بھیجا گیا۔اس وقت تک پاکستانی ایجنسیاں اور حکومت، افغانستان کے سابقہ کمانڈروں کے درمیان جوڑ توڑ میں مصروف تھیں جب طالبان نے افغانستان کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو پاکستان نے ان سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تاکہ افغانستان کے عسکری و سیاسی منظر نامے میں طالبان کو اپنا مہرہ بنایا جا سکے۔طالبان اگرچہ سادہ لوگ سمجھے جاتے تھے اور پاکستان کے حوالے سے (خاص طور پر پاکستانی عوام کے حوالے سے ) برادرانہ جذبات رکھتے تھے مگر کسی کا کارندہ اور آلہ کار بننا بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور یہ سب اس لیے تھا کہ طالبان پیسہ،شہرت اور اقتدار کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ مخصوص اسلامی نطریات ہی ان کے لیے اپنی جان سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔
طالبان تحریک کے آغاز اور نائن الیون سے پہلے تک کے حالات:طالبان تحریک کی کامیابی سے پہلے پاکستان(پاکستان سے مراد یہاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ہے)گلبدین حکمت یار کو افغانستان کا حاکم بنانا چاہتے تھے ، مگر بھارت نواز شمالی اتحاد اور گلبدین حکمت یار کی آپسی لڑائی اور دونوں طرف سے عوام پر کیا جانے والا ظلم (رپورٹس کے مطابق 1994 میں کابل میں ہونے والی آپسی لڑائی اور بمباری کی وجہ سے پچیس ہزار سے زائد افراد مارے گئے) کی وجہ سےے گلبدین حکمت یار مطلوبہ عوامی حمایت کھو چکا تھا۔اس خانہ جنگی کے ماحول میں جب طالبان حکومت کامیاب ہوئی تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو طالبان افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب نظر آئے اس لیے مختلف طریقوں سے تعلقات بڑھائے گئے۔طالبان خود بھی پاکستان کے ساتھ اچھے اور برادرانہ تعلقات چاہتے تھے۔طالبان میں جنگجوؤں کی تعداد کے لحاظ سے افغانیوں کے بعد سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں (قبائلی اور پنجابی)کی ہی رہی۔پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا یہ دورانیہ نائن الیون تک رہا ۔ واضح رہے کہ پاکستان میں طالبان کو سب سے زیادہ مالی یا جانی سپورٹ اسلامی مدارس، پاکستانی علماء مختلف جہادی تنظیموں اور قبائلیوں وغیرہ سے ملی نا کہ پاکستانی حکومت سے اور جہاں تک پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کا سوال ہے تو اسے طالبان سے زیادہ پاکستانی عوام( یعنی پاکستانی جہادی تنظیموں وغیرہ) نے ہی طالبان کی مدد کےلیے استعمال کیا اور اس کے بدلے میں یقیناً طالبان نے افغانستان میں پاکستان دشمن اور بھارت نواز عسکری اتحاد کو شکست دے کر پاکستانی مفادات کا تحفظ کر کے معاملات کو برابر کر دیا۔ایسے میں چند واقعات ہوئے جس سے طالبان اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔القاعدہ کے امیر اسامہ بن لادن اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان آچکے تھے۔امریکہ کے خلاف جہاد کے اعلان کی وجہ سے امریکہ نے اسامہ بن لادن پر کئی حملے کرائے۔20 اگست 1998 کو رات کے وقت امریکی بحری بیڑے نے بحیرہ عرب میں پاکستانی سمندری حدود سے افغانستان میں عرب،افغان اور پاکستانی جہادیوں کے تربیتی مراکز پر کروز میزائیل حملے کیے(خوست میں 90 میزائیل اور جلال آباد میں 60 میزائیل داغے گئے)۔یہ حملے پاکستانی حکام کی رضامندی سے ہوئے حملوں سے چند گھنٹے قبل ہی میران شاہ بارڈر بند کر دیا تھا۔زخمی جنگجوؤں کو میران شاہ کے راستے پاکستان بھجوانے کی کوشش کی گئی مگر بارڈر صبح نو بجے کے بعد کھولا گیا اور یہ سب امریکی ہدایات کے عین مطابق تھا۔اس کے با وجود جب پاکستانی اور چینی حکام نے نہ پھٹ سکنے والے کروز میزئیلوں کو منہ مانگی قیمت کے تحت طالبان سے خریدنا چاہا تو طالبان نے وہ میزائیل مفت ہی دے دیے اس سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان اپنے ہمسایہ ممالک سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے تھے لیکن امریکہ کی خطے میں بڑھتی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ تعلقات جو پوری طرح قائم بھی نہیں ہوئے تھےآہستہ آہستہ اپنے اختتام کو پہنچنے لگے۔بامیان میں بدھا کے مجسمے کی تباہی ہو یا یونوکال گیس پائپ لائن کا معاملہ،اسامہ بن لادن کی حوالگی کا معاملہ ہو یا امریکی جارحیت ان سب معاملات میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا نا کہ طالبان کا۔کہیں لالچ سے(سابق صدر پرویز مشرف نے ملا عمر کو مرسیڈیز گاڑی بھی تحفے میں دی تھی جسے ملاعمر نے واپس بھجوا دیا تھا) اور کہیں امریکہ کا خوف دلاکر امریکہ اور عالمی قوتوں کے مفادات کے مطابق کام کرنے کی تحریص دلائی گئی جو یقیناً طالبان جیسے غیرت مند وں کےلیے قابل قبول نہیں تھی۔اسی طرح جہاں طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کیے گئے وہیں بیک وقت شمالی اتحاد کے بعض کمانڈروں سے بھی درپردہ تعلقات رکھے گئے۔جہاں طالبان اور انکی حامی جہادی تنظیموں کی پاکستان میں رسائی تھی وہیں طالبان مخالف ،امریکہ نواز کمانڈر وں اور رہنما ؤں حامد کرزئی،گل آغا شیرزئی،ملا ملنگ ،کمانڈر عبدالحق وغیرہ بھی اپنی سرگرمیاں پاکستان سے جاری رکھے ہوئے تھے بلکہ نائن الیون کے فوراً بعد ان کمانڈروں کو امریکہ کی ایماء پر طالبان کے خلاف حملوں کےلیے مدد بھی فراہم کی گئی۔پاکستان نے طالبان سے تعلقات کے دوران سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ جب طالبان پاکستان کو برادر اسلامی ملک سمجھ رہے تھے تو بیک وقت پاکستانی حکام طالبان کو ایک عام جنگجو ملیشیا کے طور پر ڈیل کر رہے تھے اور اس پر مزید معاملہ تب خراب ہوا جب امریکہ اور طالبان کی براہ راست مخاصمت شروع ہوئی تو پاکستانی حکام نے اپنے پرانے اتحادی امریکہ کا ساتھ دیا۔
نائن الیون سے اب تک کے حالات:
نائن الیون کے بعد امریکہ و نیٹو اتحاد نے افغانستان پر بھرپور حملہ کر دیا۔پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا۔امریکہ کو انٹیلی جینس اور لاجسٹک سپورٹ مہیا کی گئی۔پاکستان نے اپنی زمین اور فضا امریکہ کے حوالے کر دی۔پاکستانی ائیربیسز سے اڑے والے امریکی طیاروں کی بمباری کے ذریعے ہزاروں عام افغان شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔عوام کو بھاری جانی نقصان سے بچانے اور لمبی گوریلا لڑائی کی حکمت عملی کے تحت طالبان نے شہروں سے سقوط کر لیا۔افغان،ازبک،عرب اور پاکستانی جنگجوؤں کی اکثریت نے پاکستانی قبائلی علاقوں کا رخ کیا۔کئی اندرون پاکستان مختلف شہروں میں منتقل ہو گئے۔طالبان حکومت کے پاکستان میں سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو پاکستان نے امریکیوں کے حوالے کر دیا پھر القاعدہ،طالبان رہنماؤں و جنگجوؤں اور ان سے منسلک لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔ملا عمر کے نائب ملا برادر،ملا برادر کے نائب ملا عبید ،شعبہ تعلیم و تربیت اور شعبہ ثقافت کے وزیر استاد یاسر، ملا عمر کے مشیر و معاون ملا جہانگیر وال زابلی،روس دور کے مشہور جہادی رہنما یونس خالص کے بیٹے اور طالبان رہنما ملا انور الحق مجاہد،قندوز کے گورنر ملا عبدالسلام،بغلان کے گورنر ملا محمد،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر ملا ترابی، طالبان کے سابق ملٹری چیف ملا داداللہ کے بھائی ملا منصور داد اللہ کو پاکستان نے گرفتار کرکے جیلوں میں قید کر دیا۔طالبان کے سابق وزیر دفاع ملا عبید اللہ اخوند پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی قید کے دوران کراچی جیل میں وفات پاگئے،جس پر طالبان کی طرف سے مذمتی بیان جاری کیا گیا۔اسی طرح پاکستان میں دو دفعہ گرفتار کیے جانے والے مشہور طالبان رہنما(سابق وزیر طالبان حکومت)استاد یاسر بھی پاکستانی جیل میں وفات پاگئے۔جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیر الدین حقانی کو بارہ کہو اسلام آباد میں ٹارگٹ کلنگ کی کاروائی میں قتل کر دیا گیا(بعض طالبان ذرائع نے اسے افغانی و پاکستانی انٹیلی جینس کی مشترکہ کاروائی قرار دیا)۔پچھلے کچھ عرصے میں تواتر سے مختلف طالبان رہنماؤں کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کاروائیوں میں قتل کیا گیا(طالبان اسے بھی پاکستانی انٹیلی جینس ایجنسیوں کی کاروائی سمجھتے ہیں )۔نیٹو سپلائی بھی پاکستان کی سرزمین سے گزر کر جاتی رہی۔پاکستان میں طالبان،القاعدہ،ازبک،اور چینی جہادیوں کی اکثریت وزیرستان اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں منتقل ہو گئی اور وہاں عسکری و تربیتی مراکز قائم کر دیے،گویا وزیرستان و گردونواح پوری دنیا کی جہادی تنظیموں(بشمو ل القاعدہ و طالبان) کا مرکز اور امریکی و نیٹو اتحاد کے خلاف ایک بیس کا کام کر رہا تھا۔انتہائی مختصر سے وقفے کے بعد طالبان ،القاعدہ اور دوسرے معاون گروہوں نے افغانستان میں امریکہ پر حملے شروع کر دیے ۔اور پیچھے سے پاکستان افواج نے امریکہ کے کہنے پرقبائلی علاقوں میں ازبک اور القاعدہ جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کر دیے۔جو درحقیقت امریکہ کو افغانستان میں محفوظ بنانے کی پالیسی تھی۔پاکستانی انٹیلی جینس کی مدد سے طالبان و القاعدہ رہنماؤں کے خلاف ڈرون حملے بھی شروع کیے گئے جو تا حال جاری ہیں۔ وزیرستان و قبائل میں افغان طالبان کے میزبان اور مددگار قبائلی جنگجوؤں نے وزیرستان و قبائل میں امریکی مخالف طالبان و القاعدہ جنگجوؤں کو پشت سے حفاظت فراہم کر نے کےلیے تحریک طالبان پاکستان کے نام سے اتحاد بنا لیا۔ وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے مراکز ایک ساتھ رہے ہیں(افغان طالبان کے سب سے زیادہ قریب پاکستانی طالبان کا حلقہ محسود ہے) کئی طالبان رہنماؤں بشمول استاد یاسر ،حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر ملا سنگین اور طالبان دور کے ملٹری چیف ملا داد اللہ کی پاکستانی طالبان رہنماؤں کے ساتھ کئی تصاویر اور ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں ۔تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی افواج کے مسلسل فوجی آپریشنز کا دفاع شروع کر دیا اور اس دوران القاعدہ و طالبان کامیابی سے افغانستان میں امریکی و نیٹو اتحاد پر تباہ کن عسکری حملے شروع کر دیے۔لال مسجد آپریشن کے بعد القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نے پاکستان سیکیورٹی اداروں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا(یہاں یہ یاد رہنا چاہیے کہ القاعدہ 1996 سے لے کر تاحال افغان طالبان کی زیر سرپرستی کام کر رہی ہےجس کا تازہ ثبوت نئے طالبان رہنما ملا منصور کا ایمن الظواہری کی بیعت قبول کرنا ہے) اور پاکستان میں امریکی اور پاکستانی عسکری اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا لیکن زیادہ توجہ افغانستان میں امریکہ پر مرکوز رکھی گئی۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہےکہ افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف آج تک کوئی کاروائی کیوں نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ اصل اور حقیقی دشمن امریکہ کو سمجھتی ہیں اور باقی تمام نیٹو اور نان نیٹو اتحادی بشمول پاکستان و افغانستان کی حکومتوں اور افواج کو امریکہ کا آلہ کار سمجھتی ہیں۔ان کے خیال کے مطابق جب تک امریکہ کو مکمل طور پر زیر نہیں کر لیا جاتا تب تک دوسری جنگوں میں اپنے آپ کو پھنسانا دانش مندی نہیں اس لیے القاعدہ و طالبان رہنماؤں نے پے درپے آپریشنز سے بچنے کےلیے پاکستانی افواج کے خلاف صرف دفاع کے لیے ہی پاکستانی طالبان کا اتحاد تشکیل دیا تھا(یہاں یہ دھیان میں رہنا ضروری ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے چند گروہوں کی چند مخصوص شدت پسندانہ کاروائیوں بشمول،واہگہ بارڈر،پشاور سکول وغیرہ کو القاعدہ اورافغان طالبان رہنما ؤں اور خود پاکستانی طالبان کے چند رہنماؤں نے بھی سخت نا پسند کیا اور اس کی شدیدمذمت کی گئ)۔ضرب عضب آپریشن میں شمالی وزیرستان میں جہاں دوسری جہادی تنظیموں گروہوں کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا وہیں افغان طالبان کے مراکز کو بھی بالخصوص نشانہ بنایا گیا،بلکہ اس سے کچھ عرصہ قبل شروع ہونے والے ڈرون حملوں کے نئے سلسلے میں افغان طالبان رہنماؤں اور مراکز کو خصوصی طور پر نشانہ بنایاگیا اورشروع سے ہی ڈرون حملوں کی ساری کمپین کا زیادہ تر انحصار پاکستانی انٹیلی جینس پر ہی رہا ہے۔پاکستانی میڈیا اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے ہر کچھ عرصے بعد اٹھایا جانے والا طالبان مذاکرات کا شوشہ بھی صرف یہ ثابت کرنے کےلیے ہوتا ہے کہ گویا افغان طالبان ،پاکستانی حکومت و فوج سے اٹھائے جانے والے اتنے صریح نقصانات کے باوجودپاکستان کے ایجنٹ یا کم ازکم دوست ہی ہیں،حالانکہ افغان طالبان اپنی آفیشل ویب سائٹ پر مذاکرات کے ان دعووں کی پرزور تردید کر چکے ہیں۔آخر پر دو باتیں کہنا چاہوں گا کہ جو تعلق پاکستان کا امریکہ سے ہے وہی القاعدہ یا پاکستانی طالبان کا افغان طالبان سے ہے۔اور چونکہ امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ و حکومت آپس میں دوست و اتحادی ہیں اور امریکہ وطالبان آپس میں دشمن ہیں اور دشمن کا دوست دشمن ہی ہوتا ہے اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
۔